سوال:
مفتی صاحب ! کچھ لوگ کہتے ہیں کہ علماء اور مفتی حضرات جو بھی مسئلے کا حَل بتاتے ہیں، کیسے پتہ چلے گا کہ یہ صحیح بتاتے ہیں ؟ اس کے جواب میں کیا کہنا چاہیے؟
جواب: اس سوال کے دو جواب ہو سکتے ہیں:
پہلا جواب:
اگر سوال پوچھنے والا واقعی سنجیدہ ہے، اس کے دل میں علماء کا احترام ہے، البتہ صرف وہ اپنے اطمینان کرنے کے لیے پوچھتا ہے، تو اسے یوں سمجھایا جاسکتا ہے کہ جب بھی کوئی شرعی رہنمائی لینی ہو، تو ہمیشہ مستند عالم یا مفتی سے معلوم کریں، جن کے فتوے پر دوسرے علماء اعتماد کرتے ہوں، پھر ان کے بتائے ہوئے دینی مسائل پر اعتماد کریں۔
اس کی مثال بالکل ایسے ہے، جیسے ہم بیماری کے وقت اپنے جسمانی علاج کے لیے مستند طبیب تلاش کرکے اس سے اپنا علاج کرواتے ہیں اور طبیب کی تجویز کردہ دوا کو صرف اسی کے اعتماد پر کھا لیتے ہیں، جبکہ اس بات کا ہمیں قطعی علم نہیں ہوتا کہ طبیب نے صحیح دوا تجویز کی یا نہیں۔
دوسرا جواب:
اور اگر سوال کرنے والے کے انداز سے ایسا محسوس ہو کہ وہ یہ سوال صرف علماء کی وقعت کو لوگوں کے دلوں سے کم کرنا چاہتا ہے، تو اسے پیار بھرے نرم لہجے میں ذیل میں دی گئی تفصیل کے مطابق جواب دیا جائے:
"اگر آپ کو واقعی یہ جاننا ہے کہ علماء کرام کے بتائے ہوئے احکامِ شریعت درست ہیں یا نہیں؟
تو آپ اپنی زندگی میں سے کم از کم ١٢سال فارغ کرکے علوم دینیہ کو از اول تا آخر پوری تن دہی کے ساتھ پڑھیں، جس میں آپ عربی زبان پر مکمل عبور حاصل کریں، پھر مکمل قرآن کریم کی تفسیر پڑھیں، حدیث و فقہ کی کتابیں پڑھیں، اصول تفسیر، اصول حدیث اور اصول فقہ از اول تا آخر پڑھیں، پھر علم الکلام قدیم و جدید پڑھیں، فلسفہ، منطق اور جغرافیہ و فلکیات کو پڑھیں، ریاضی کے اصول پھر علم الفرائض ( میراث) پڑھیں، عربی ادب نظم و نثر کی بنیادی اور انتہائی کتابیں پڑھیں، عربی اشعار کو سمجھنے کے لیے علم عروض و قوافی پڑھیں، پھر آخر میں جاکر احادیث کی بڑی کتابیں پڑھیں، جس کے ساتھ چاروں مسالکِ فقہ ( فقہ حنفی، شافعی، حنبلی اور فقہ مالکی) کو بمع ان کے دلائل پڑھیں، جب ان تمام علوم دینیہ کی تکمیل ہو جائے اور اعلی نمبرات سے امتحان میں کامیابی سے ہم کنار ہو جائیں، تو پھر کسی معتبر دارالافتاء میں سالہا سال کے کہنہ مشق، تجربہ کار مفتیان کے زیر نگرانی فتوی کی تربیت حاصل کریں اور جب وہ مفتی آپ کو سند دیدیں کہ اب آپ لوگوں کو دین کے مسائل بتا سکتے ہیں، یہ وہ وقت ہوگا جب آپ علماء کرام کے بتلائے ہوئے مسائل کا دلائل کی روشنی میں تجزیہ کر سکیں گے کہ انہوں نے صحیح مسئلہ بیان کیا ہے یا غلط۔؟
جب تک اتنی اہلیت پیدا نہیں ہوجاتی، تب تک مستند علماء کرام کے بتائے ہوئے مسائل پر اسی طرح اعتماد کرتے رہیں، جیسے مستند طبیب کی دی ہوئی کڑوی کسیلی دوا اس کے بھروسے پر کھالیتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (الانبیاء، الایة: 7)
فَسۡئَلُوۡۤا اَہۡلَ الذِّکۡرِ اِنۡ کُنۡتُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَo
فتح الباری: (263/13، ط: دار المعرفة)
قال البغوي في شرح السنة المسائل على وجهين أحدهما ما كان على وجه التعليم لما يحتاج إليه من أمر الدين فهو جائز بل مأمور به لقوله تعالى فاسألوا أهل الذكر الآية وعلى ذلك تتنزل أسئلة الصحابة عن الأنفال والكلالة وغيرهما ثانيهما ما كان على وجه التعنت والتكلف وهو المراد في هذا الحديث والله أعلم ويؤيده ورود الزجر في الحديث عن ذلك وذم السلف فعند أحمد من حديث معاوية أن النبي صلى الله عليه وسلم نهى عن الأغلوطات قال الأوزاعي هي شداد المسائل وقال الأوزاعي أيضا إن الله إذا أراد أن يحرم عبده بركة العلم ألقى على لسانه المغاليط فلقد رأيتهم أقل الناس علما
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی