سوال:
ایک مطلقہ عورت اپنی عدت اپنے سابق شوہر اور چھوٹے بچوں کے ساتھ شوہر کے گھر میں گذار رہی ہے تو کیا اس پر سابق شوہر کی خدمت لازم ہے اور جو چھوٹے بچے ہیں ان کی کفالت اور خدمت کس پر از روئے شریعت لازم اور ضروری ہے؟
جواب: واضح رہے کہ طلاق کے بعد دورانِ عدت مطلقہ بیوی پر سابقہ شوہر کی خدمت کرنا لازم نہیں ہے۔ عدت کے دوران بیوی کا نان و نفقہ شوہر پر لازم ہے، جبکہ اولاد میں سے بیٹیوں کا نفقہ شادی ہونے تک والد کے ذمہ ہے، اسی طرح بیٹوں کا نفقہ بھی والد پر ہے جب تک کہ وہ بالغ ہوکر کمانے کے قابل نہ ہو جائیں۔
جہاں تک بچوں کی پرورش اور خدمت کا سوال ہے تو شریعت نے چھوٹے بچوں کی پرورش کا حق ماں کو دیا ہے، لہذا طلاق کے بعد بھی ماں لڑکے کو سات برس کی عمر تک اور لڑکی کو نو برس کی عمر تک اپنے پاس رکھ سکتی ہے، البتہ اگر اس نے کسی ایسے شخص سے دوسری شادی کرلی جو بچوں کے لیے نامحرم ہے تو پھر اس کا یہ حق ساقط ہو جائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الھندیة: (557/1 ط: رشیدیة)
المعتدة عن الطلاق تستحق النفقة والسكنى كان الطلاق رجعيا أو بائنا، أو ثلاثا، حاملا كانت المرأة، أو لم تكن.
و فیه ایضاً: (560/1 ط: رشیدیة)
نفقة الأولاد الصغار على الأب لا يشاركه فيها أحد ... ونفقة الإناث واجبة مطلقا على الآباء ما لم يتزوجن إذا لم يكن لهن مال ... ولا يجب على الأب نفقة الذكور الكبار إلا أن الولد يكون عاجزا عن الكسب
الدر المختار: (215/5، 216، ط: دار احیاء التراث العربي)
والحاضنُ أماً أو غیرہ أحق به أي: بالغلام، حتی یستغني عن النساء، وقدر بسبع وبه یفتی؛ لأنه الغالب ... والأم والجدة ... أحق بھا، أي: الصغیرة حتی تحیض ... وغیرهما أحق بھا حتی تشتھي و قدر بتسع، و به یفتی ... الخ
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی