عنوان: ایک سگے بھائی، ایک باپ شریک بھائی اور دو باپ شریک بہنوں میں میراث کی تقسیم (19149-No)

سوال: میرے سگے والد صاحب کا انتقال ہوچکا ہے، والد صاحب کے بعد میری والدہ کا بھی انتقال ہوگیا ہے، ان والدہ سے میں اور میرے ایک بڑے بھائی ہیں، میرے بڑے بھائی کا بھی انتقال ہوگیا ہے۔ میرے والد صاحب نے دوسری شادی کی تو نکاح کے وقت آدھا مکان دوسری بیوی (یعنی میری سوتیلی والدہ) کے نام کردیا، دوسری والدہ سے ایک بھائی اور دو بہنیں ہیں، اب سے چالیس سال پہلے میری شادی ہوئی، اس کے بعد گھر میں کچھ ناچاقی کی وجہ سے مجھے الگ ہونا پڑا، اس وقت میرا جو حصہ بنتا تھا، اس میں سے اکیس ہزار کے علاوہ مجھے میرا حصہ دے دیا اور یہ اکیس ہزار ابھی تک ادا نہیں کیے۔ اس ساری تفصیل کے بعد مجھے معلوم یہ کرنا ہے کہ میرے بڑے بھائی نے شادی نہیں کی تھی اور ان کا انتقال بھی ہوگیا ہے، ان کی حیثیت کلالہ کی ہے، ان کی میراث کا حصہ کس کو منتقل ہوگا؟

جواب: پوچھی گئی صورت میں اگر آپ کے سگے بھائی کے انتقال کے وقت اس کے والدین، دادا، بیوی اور بچوں میں سے کوئی ایک بھی زندہ نہیں تھا اور آپ (زندہ بھائی) کے علاوہ کوئی اور سگے بھائی بہن بھی نہیں تھے، چونکہ سگے بھائی کی موجودگی میں باپ شریک بہن بھائیوں کو کچھ حصہ نہیں ملتا ہے، لہذا آپ کے مرحوم سگے بھائی کا کل ترکہ آپ (زندہ سگے بھائی) کو ملے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

الفقه الإسلامي وأدلته: (7770/10، ط: دار الفكر سوريَّة)
"وفي الأثر: « الكلالة: من ليس له ولد، ولا والد ». وولد الابن داخل في الولد ، لقوله تعالى: {يا بني آدم} [الأعراف:31/7] والجد داخل في الوالد ، لقوله تعالى: {كما أخرج أبويكم من الجنة} [الأعراف:27/7]."

الدرالمختار مع رد المحتار: (کتاب الفرائض، فصل فی العصبات، 774/6، ط: دار الفکر)
"(يحوز العصبة بنفسه وهو كل ذكر) فالأنثى لا تكون عصبة بنفسها بل بغيرها أو مع غيرها (لم يدخل في نسبته إلى الميت أنثى) فإن دخلت لم يكن عصبة كولد الأم فإنه ذو فرض وكأبي الأم وابن البنت فإنهما من ذوي الأرحام (ما أبقت الفرائض) أي جنسها ( وعند الانفراد يحوز جميع المال ) بجهة واحدة. ثم العصبات بأنفسهم أربعة أصناف جزء الميت ثم أصله ثم جزء أبيه ثم جزء جده (ويقدم الأقرب فالأقرب منهم) بهذا الترتيب فيقدم جزء الميت (كالابن ثم ابنه وإن سفل ثم أصله الأب ويكون مع البنت) بأكثر (عصبة وذا سهم) كما مر (ثم الجد الصحيح) وهو أبو الأب (وإن علا) وأما أبو الأم ففاسد من ذوي الأرحام (ثم جزء أبيه الأخ) لأبوين (ثم) لأب ثم (ابنه) لأبوين ثم لأب (وإن سفل) تأخير الإخوة عن الجد وإن علا قول أبي حنيفة وهو المختار للفتوى".
"(قوله: ويقدم الأقرب فالأقرب إلخ) أي الأقرب جهة ثم الأقرب درجة ثم الأقوى قرابة فاعتبار الترجيح أولا بالجهة عند الاجتماع، فيقدم جزؤه كالابن وابنه على أصله كالأب وأبيه ويقدم أصله على جزء أبيه كالإخوة لغير أم وأبنائهم، ويقدم جزء أبيه على جزء جده كالأعمام لغير أم وأبنائهم وبعد الترجيح بالجهة إذا تعدد أهل تلك الجهة اعتبر الترجيح بالقرابة، فيقدم الابن على ابنه والأب على أبيه والأخ على ابنه لقرب الدرجة، وبعد اتحاد الجهة والقرابة يعتبر الترجيح بالقوة، فيقدم الأخ الشقيق على الأخ لأب، وكذا أبناؤهم، وكل ذلك مستفاد من كلام المصنف، وصرح به العلامة الجعبري حيث قال: "فبالجهة التقديم ثم بقربه ... وبعدهما التقديم بالقوة اجعلا."

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 264 Jul 26, 2024
aik sagy bhai, aik baap shareek bhai or do 2 baap shareek behno mein miras ki taqseem

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Inheritance & Will Foster

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.