resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: بنجر زمین کو آباد کرنا اور ایک وارث کا اس پر کاشتکاری وغیرہ کرنا (31178-No)

سوال: میرے مرحوم نانا جان نے اندازاً 1965 یا 1967 میں 20 ایکڑ زمین پے قبضہ کیا تھا اور وہ جب تک زندہ تھے، اس میں کاشتکاری کرتے تھے۔ مرحوم کی وفات 1998 میں ہو گئی، متوفی کی اولاد میں تین بیٹے اور چار بیٹیاں ہیں، تمام اولاد ان کی وفات سے پہلے شادی شدہ تھی اور آج تک زندہ بھی ہے اور اس کے بعد میرے (ماموں) ان کے بڑے بیٹے نے وہ زمین اپنے اختیار میں لے لی، وہ آج تک ساری زمین اپنے پاس رکھی ہوئی ہے، اس پر کاشتکاری بھی کرتا ہے، 1998 سے لیکر 2025 یعنی آج تک اس زمین کا کوئی بھی حصہ چاہے وہ زمین ہو یا آبادی سے حاصل شدہ رقم کچھ بھی نہیں دے رہا، کچھ زمین وہ رقم کے عوض بیچ چکا ہے۔
خلاصہ سوال کہ
1) اس زمین کو جب تک سرکار اپنے قبضے میں نہیں لے لیتی تب تک اس زمین سے جو منافع ہوا ہے، اس کا حقدار کون ہے؟
2) معلوم ہوا ہے کہ یہ زمین سرکار نے کورٹ کے ذریعے اپنے قبضے میں لینی چاہی لیکن نہ لے سکی، اگر اس طرح ہے تو کیا یہ زمین ترکہ میں شامل ہوگی یا نہیں؟
تنقیح:
محترم! اس بات کی وضاحت فرمائیں کہ آپ کے نانا مرحوم نے کسی کی ذاتی زمین اپنے قبضہ میں لی تھی یا سرکاری زمین تھی؟ اگر سرکاری زمین تھی تو آیا حکومت کی اجازت سے اسے آباد کیا تھا یا اجازت کے بغیر؟ براہ کرم اس کی وضاحت فرمائیں۔ اس کے بعد آپ کے سوال کا جواب دیا جائے گا۔
جواب تنقیح:
حضرت! در حقیقت وہ زمین جس پے میرے نانا جان نے قبضہ کیا تھا، وہ سرکاری زمین تھی، قبضہ کرنے سے پہلے وہ (کسان) ھاری تھے، بعد میں وہ زمیں سرکاری فارم کے حوالے کر دی گئی تھی، مگر فارم کے حوالے ہونے کے بعد انھوں نے زمینیں آباد کرنا چھوڑ دیں، اس وقت نانا جان اور گاؤں کے کچھ اور لوگ بھی ھاری تھے ، ان کے گذر کا واحد سہارا زمین تھی، جب فارم والے لاتعلق ہو گئے تو انہوں نے وہ زمین اپنے مویشی بیچ کر آباد کی تو فارم والے بھی آباد زمین کا حصہ لینے آئے تو گاؤں والوں نے کہا کہ جو خرچہ ہم لوگوں نے کیا ہے وہ ہمیں دو، اس کے بعد فارم والوں نے کورٹ سے رجوع کیا اور کہا کہ گاؤں والوں نے سرکاری زمین پے قبضہ کیا ہے، اس کے بعد نانا مرحوم اور گاؤں والوں نے اس زمین پے قبضہ کر لیا جس کے بعد فارم والے بھی دست بردار ہوگئے، پھر نانا جان کی وفات ہوگئی اور اس کیس کی پیروی اس کے بڑے بیٹے (یعنی میرے بڑے ماموں) نے کی اور نانا جان کی جگہ اپنے آپ کو قبضہ دار ٹھرایا اور ساری زمین اپنے قبضہ میں لے لی، اب کورٹ کا فیصلہ بھی نانا جان والوں کے حق میں ہے، اس زمین کے کاغذات بھی بن سکتے ہیں مگر صرف اس وجہ سے بنوا نہیں رہے کہ حصہ داروں کو حصے دینے پڑینگے۔

جواب: 1-2) واضح رہے کہ ایسی زمین جس پر کسی کی ملکیت نہ ہو اور وہ غیر آباد ہو، "أرض موات" کہلاتی ہے۔ اگر کوئی شخص اس زمین کو حکومت کی اجازت سے آباد کرے تو وہ زمین شرعاً اس کی ملکیت ہو جاتی ہے۔
لہذا آپ کے نانا مرحوم نے اگر زمین کو فارم والوں کی دستبرداری کے بعد آباد کیا اور عدالت نے بھی ان کے حق میں فیصلہ دیدیا ہے تو یہ زمین شرعاً ان کی ملکیت بن گئی۔ اس لئے وہ زمین شرعی طور پر ان کا ترکہ (میراث) ہے، اور اس میں تمام ورثاء اپنے اپنے شرعی حصے کے مطابق حق دار ہوں گے، نیز اس زمین سے حاصل ہونے والی آمدنی بھی ترکہ میں شامل ہوگی، جس میں تمام ورثاء مشترکہ مالک شمار ہوں گے۔
جس وارث نے اس زمین پر محنت اور کاشتکاری وغیرہ کی، اور باقی ورثاء کی طرف سے صراحة یا دلالة (جس صورت میں ورثاء نے کوئی اعتراض نہ کیا ہو) اجازت تھی تو ایسی صورت میں اس وارث کو اپنی محنت کے عوض "اجرت مثل" ملے گی۔ اجرت مثل سے مراد یہ ہے کہ اس جیسی مہارت والا شخص اگر کسی کی زمین پر اتنا عرصہ اجرت پر کام کاشتکاری وغیرہ ہو تو اس کو جو اجرت ملتی ہے، وہ اس کی اجرت مثل کہلائے گی۔
لہذا جتنا عرصہ اس وارث نے اس میں پر محنت کی، اتنے عرصے کی اس کو اجرت مثل کا حق دار ہے، تاہم اس دوران اس نے کاشتکاری وغیرہ کرکے جو منافع حاصل کرلیے، یا کوئی زمین کا حصہ بیچ کر رقم استعمال کرلی، وہ رقم اس کی اجرت مثل میں شمار کرکے پہلے اس کی اجرت مثل پوری کی جائے گی، اس نے جو رقم وغیرہ لی ہو، وہ اجرت مثل سے زیادہ بن رہی ہو تو اجرت مثل سے زیادہ مالیت ترکہ کا حصہ قرار پائے گا۔ اس طرح مکمل ترکہ تمام ورثاء میں شرعی اصولوں کے مطابق تقسیم ہوگا۔ کسی ایک وارث کا پوری جائیداد پر قبضہ کر کے دوسروں کو ان کے حق سے محروم رکھنا شرعاً جائز نہیں ہے، اس سے اجتناب لازم ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

سنن الترمذی: (رقم الحدیث: 1378، کتاب الأحکام، باب ما جاء في إحياء الأرض)
من أحيا أرضاً ميتة فهي له

مرقاۃ المفاتیح: (کتاب البيوع، باب الغصب والعارية، 1973/5، ط: دار الفكر)
(عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: (من أحيا أرضا ميتة ) أي: غير مملوكة لمسلم، ولم يتعلق لمصلحة بلدة أو قرية بأن يكون مركض دوابهم مثلا (" فهي له ") ، أي: صارت تلك الأرض مملوكة له، لكن إذن الإمام شرط له عند أبي حنيفة رحمه الله ."

الدر المختار مع رد المحتار: (431/6، ط: دار الکتب العلمیة، بیروت)
(إذا أحيا مسلم أو ذمي أرضا غير منتفع بها –وليست بمملوكة لمسلم ولا ذمي) فلو مملوكة لم تكن مواتا فلو لم يعرف مالكها فهي لقطة يتصرف فيها الإمام ولو ظهر مالكها ترد إليه ويضمن نقصانها إن نقصت بالزرع

البحر الرائق: (7/380، ط: دار الکتب العلمیة، بیروت)
فكل ما يخرج من مال التركة قبل القسمة فهو للورثة جميعاً

الھندیة: (119/6، ط: دار الفکر، بیروت)
فما حصل من منافع التركة قبل القسمة يكون مشتركاً بينهم

المحيط البرهاني: (650/7، ط: دار الكتب العلمية)
في «مجموع النوازل»: رجل يبيع شيئاً في السوق فاستعان بواحد من أهل السوق على بيعه، فأعانه، ثم طلب منه الأجر، فإن العبرة في ذلك لعادة أهل السوق، فإن كان عادتهم أنهم يعملون بأجر يجب أجر المثل، وإن كان عادتهم أنهم يعملون بغير أجر فلا شيء له.

الدر المختار: (42/6، ط: سعید)
وفي الأشباه: استعان برجل في السوق ليبيع متاعه فطلب منه أجرا فالعبرة لعادتهم، وكذا لو أدخل رجلا في حانوته ليعمل له. وفي الدرر: دفع غلامه أو ابنه لحائك مدة كذا ليعلمه النسج وشرط عليه كل شهر كذا جاز ولو لم يشترط فبعد التعليم طلب كل من المعلم والمولى أجرا من الآخر اعتبر عرف البلدة في ذلك العمل.

الدر المختار مع رد المحتار: 758/6، ط: دار الفکر، بیروت)
وليس لأحد من الورثة الانفراد بالتصرف في التركة قبل القسمة إلا بإذن الآخرين

کذا فی فتاوی جامعة الرشید کراتشی: (رقم الفتوی: 78440)

واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Inheritance & Will Foster