عنوان: قرآن کریم پڑھ کر لوگوں سے مانگنا۔۔۔۔ حدیث کی تشریح (19184-No)

سوال: حضورِ اقدس ﷺ کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ جو شخص قرآن پڑھے تاکہ اُس کی وجہ سے لوگوں سے کھائے، قِیامت کے دن وہ ایسی حالت میں آئے گا کہ اُس کا چہرہ محض ہڈی ہوگا جس پر گوشت نہ ہوگا۔
مفتی صاحب! یہ فضائل اعمال کی حدیث ہے، مجھے اس کی تشریح سمجھ نہیں آرہی ہے، کیا قاری صاحب یا جو خواتین قرآن کریم پڑھاتی ہیں، ان کے لیے فیس لینا گناہ ہے؟

جواب: حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص قرآن کریم اس لیے پڑھے کہ اس کے ذریعہ لوگوں سے کمائے (یعنی قرآن کریم کو دنیاوی فائدہ کے لیے وسیلہ بنائے) تو وہ قیامت کے دن اس حالت میں اٹھ کر آئے گا کہ اس کا چہرہ صرف ہڈی ہوگا اس پر گوشت نہیں ہوگا۔ (مشکوة المصابیح، حدیث نمبر: 2217)
تشریح: "اس حدیث میں ان لوگوں کے لیے تنبیہ اور وعید ہے جو قرآن کریم کو بھیک مانگنے کا ذریعہ بناتے ہیں یوں تو یہ بات بطورِ خود انسانی شرف کے خلاف ہے کہ کوئی شخص اپنے خدا کو چھوڑ کر اپنے ہی جیسے ایک انسان کے سامنے دست سوال دراز کرے اور حاجت روا قرار دے چہ جائیکہ اس قبیح فعل کے لیے قرآن کریم ذریعہ بنایا جائے اسی لیے (ایک دوسری حدیث میں) فرمایا جارہا ہے کہ قرآن پڑھ کر صرف اللہ کے آگے دست سوال دراز کرو۔ اپنے اخروی و دنیاوی امور میں سے جو چاہو صرف اسی سے مانگو لوگوں کے آگے ہاتھ نہ پھیلاؤ کیوں کہ وہ خود اسی ذات کے محتاج ہیں وہ تمہاری کیا حاجت پوری کریں گے۔" (مظاہر حق: 376/2، ط:دارالاشاعت کراچی)
واضح رہے کہ اس حدیث میں وہ لوگ مراد ہیں جو لوگ قرآن شریف کو طلبِ دنیا کی غرض سے پڑھتے ہیں، البتہ وہ لوگ جو صحیح نیت سے پڑھنے کے بعد لوگوں کو اس کی تعلیم دینے میں اپنی خدمات اور وقت صرف کرتے ہیں اور اس خدمت اور وقت صرف کرنے پر اجرت لیتے ہیں، وہ لوگ اس وعید میں داخل نہیں ہیں، جیسا کہ حدیث مبارکہ سے اس کا ثبوت ہے۔ چنانچہ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے اصحاب میں سے بعض صحابہ رضی اللہ عنہم ایک سفر میں جا رہے تھے، وہ عرب قبائل میں سے ایک قبیلہ کے پاس سے گزرے، تو انہوں نے ان قبیلہ والوں سے مہمانی طلب کی، لیکن انہوں نے مہمان نوازی نہ کی، پھر انہوں نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے پوچھا، کیا تم میں کوئی دم کرنے والا ہے؟ کیونکہ قبیلہ کے سردار کو (کسی جانور نے) ڈس لیا ہے یا کوئی تکلیف ہے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے کسی نے کہا: جی ہاں! پس وہ اس کے پاس آئے، اور اسے سورہ فاتحہ کے ساتھ دم کیا، تو وہ آدمی تندرست ہوگیا، انہیں بکریوں کا ریوڑ دیا گیا، لیکن اس صحابی نے اسے قبول کرنے سے انکار کردیا اور کہا کہ جب تک اس کا ذکر میں نبی ﷺ سے نہ کرلوں نہیں لوں گا، وہ نبی ﷺ کے پاس حاضر ہوا اور آپ ﷺ سے یہ سارا واقعہ ذکر کیا اور عرض کیا اے اللہ کے رسول! اللہ کی قسم میں نے سورہ فاتحہ ہی کے ذریعے دم کیا ہے، آپ ﷺ مسکرائے اور فرمایا: تمہیں یہ کیسے معلوم ہوا کہ یہ دم ہے؟ پھر فرمایا: ان سے(ریوڑ) لے لو اور ان میں سے اپنے ساتھ میرا حصہ بھی رکھو۔ (صحیح مسلم: حدیث نمبر: 2201)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو لوگ اپنا وقت قرآن پاک پڑھانے کی خدمت میں صرف کر رہے ہیں، ان کے لیے اپنی خدمت کے عوض اجرت لینا جائز ہے، وہ لوگ سوال میں ذکر کردہ وعید میں شامل نہیں ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

صحیح مسلم: (رقم الحدیث: 2201، ط: دار إحیاء التراث العربی)
عن أبي سعيد الخدري، أن ناسا من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم كانوا في سفر، فمروا بحي من أحياء العرب، فاستضافوهم فلم يضيفوهم، فقالوا لهم: هل فيكم راق؟ فإن سيد الحي لديغ أو مصاب، فقال رجل منهم: نعم، فأتاه فرقاه بفاتحة الكتاب، فبرأ الرجل، فأعطي قطيعا من غنم، فأبى أن يقبلها، وقال: حتى أذكر ذلك للنبي صلى الله عليه وسلم، فأتى النبي صلى الله عليه وسلم فذكر ذلك له، فقال: يا رسول الله والله ما رقيت إلا بفاتحة الكتاب فتبسم وقال: «وما أدراك أنها رقية؟» ثم قال: «خذوا منهم، واضربوا لي بسهم معكم».

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح: (1513/4، رقم الحدیث:2217، ط:دار الفكر، بيروت)
عن بريدة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من قرأ القرآن يتأكل به الناس جاء يوم القيامة ووجهه عظم ليس عليه لحم». رواه في شعب الإيمان.

2217 - (عن بريدة قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم - من قرأ القرآن يتأكل به الناس) أي يطلب به الأكل من الناس، قال الطيبي: يعني يستأكل كتعجل بمعنى استعجل، والباء في به للآلة أي: أموالهم (جاء يوم القيامة ووجهه عظم ليس عليه لحم) لما جعل أشرف الأشياء وأعظم الأعضاء وسيلة إلى أدناها وذريعة إلى أردئها، جاء يوم القيامة في أقبح صورة وأسوأ حالة، قال بعض العلماء: استجرار الجيفة بالمعازف أهون من استجرارها بالمصاحف، وفى الأخبار من طلب بالعلم المال كان كمن مسح أسفل مداسه ونعله بمحاسنه لينظفه، وروي عن الحسن البصري أنه قال: البهلوان الذي يلعب فوق الحبال أحسن من العلماء الذين يميلون إلى المال ; لأنه يأكل الدنيا بالدنيا، وهؤلاء يأكلون الدنيا بالدين، فيصدق عليهم قوله تعالى: {أولئك الذين اشتروا الضلالة بالهدى فما ربحت تجارتهم وما كانوا مهتدين} [البقرة: 16] وقد مدح الشاطبي القراء السبعة ورواتهم بقوله: تخيرهم نقادهم كل بارع وليس على قرآنه متأكلا (رواه البيهقي في شعب الإيمان).

الدر المختار مع رد المحتار: (55/6، ط: دار الفکر)
"(و) لا لأجل الطاعات مثل (الأذان والحج والإمامة وتعليم القرآن والفقه)، ويفتى اليوم بصحتها لتعليم القرآن والفقه والإمامة والأذان.
(قوله: ولا لأجل الطاعات) الأصل أن كل طاعة يختص بها المسلم لا يجوز الاستئجار عليها عندنا؛ لقوله عليه الصلاة والسلام : «اقرءوا القرآن ولا تأكلوا به»، وفي آخر ما عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى عمرو بن العاص: «وإن اتخذت مؤذناً فلا تأخذ على الأذان أجراً»؛ ولأن القربة متى حصلت وقعت على العامل، ولهذا تتعين أهليته، فلا يجوز له أخذ الأجرة من غيره كما في الصوم والصلاة، هداية. مطلب تحرير مهم في عدم جواز الاستئجار على التلاوة والتهليل ونحوه مما لا ضرورة إليه.
(قوله: ويفتى اليوم بصحتها لتعليم القرآن إلخ) قال في الهداية: وبعض مشايخنا - رحمهم الله تعالى - استحسنوا الاستئجار على تعليم القرآن اليوم؛ لظهور التواني في الأمور الدينية، ففي الامتناع تضييع حفظ القرآن، وعليه الفتوى اه، وقد اقتصر على استثناء تعليم القرآن أيضاً في متن الكنز ومتن مواهب الرحمن وكثير من الكتب، وزاد في مختصر الوقاية ومتن الإصلاح تعليم الفقه، وزاد في متن المجمع الإمامة، ومثله في متن الملتقى ودرر البحار".

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 198 Aug 15, 2024
quran kareem parh kar logon se mangna...hadees ki tashreeh

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Interpretation and research of Ahadees

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.