عنوان: قرض میں دیے ہوئے سونے کی قیمت سے کم رقم یا اس سونے کی مقدار سے کم سونا خوشی سے واپس لینا (19189-No)

سوال: مفتی صاحب! علی نے عمر سے قرضے کے طور پر کچھ پیسے مانگے، اس وقت اس کے پاس پیسے نہیں تھے تو اس نے ساڑھے تین تولہ سونا دیا اس شرط پر کہ سونے کے بدلے سونا ہی قرضے میں واپس کرے، اس وقت سونے کی قیمت ایک لاکھ تک تھی، اس نے بیچا تواس کو تین لاکھ اسی ہزار ملے جس سے اس نے اپنا کاروبار شروع کیا، پھر تین سالوں میں سونے کی قیمت ایک لاکھ کے بجائے ڈھائی لاکھ ہوگئی اور وہ جو تین لاکھ کا سونا تھا، اب اس سال اس کو وہ تین تولہ ساڑھے آٹھ لاکھ تک کا پڑ رہا ہے تو علی نے عمر سے کہا کہ تم اتنے نہیں ادا کر پاؤ گے تو اگر چاہو تو صرف پانچ لاکھ تک پیسے دے دو اور چاہو تو ایک ایک تولہ کر کے صرف تین تولہ واپس کر دینا باقی رہنے دو۔ مسئلہ یہ پوچھنا تھا کہ کیا ایسا کرنا جائز ہے یا کمی بیشی کرنا سود میں شمار ہوگا؟

جواب: واضح رہے کہ قرض کے بارے میں شرعی اصول یہ ہے کہ قرض میں جو چیز جتنی مقدار میں لی جائے، واپسی میں اتنی ہی مقدار میں وہ چیز دینا ضروری ہوتا ہے، قرض دیتے وقت اس میں کمی بیشی کی شرط لگانا سود کی وجہ سے ناجائز ہوتا ہے، البتہ قرض دیتے وقت کمی بیشی کی شرط لگائے بغیر اگر قرض دینے والا بعد میں اپنی خوشی اور رضامندی سے مطلوبہ چیز کے بجائے اس سے کم مقدار میں کوئی اور چیز یا وہی چیز مطلوبہ مقدار سے کم واپس لینا چاہے تو اس کی اجازت ہے۔
پوچھی گئی صورت میں اگر ابتداءً کمی بیشی وغیرہ کی شرط لگائے بغیر علی اپنی خوشی اور رضامندی سے ساڑھے تین تولہ سونے کے بجائے پانچ لاکھ روپے (جو آج کل کے حساب سے تین تولہ سونا کی قیمت سے کم ہے) یا تین تولہ سونا لے رہا ہے تو یہ جائز ہے، بلکہ علی کی طرف سے یہ خیر خواہی اور بھلائی شمار ہوگی، اور ان شاء اللہ علی اللہ تعالیٰ کے ہاں اجر کا مستحق ہوگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الدلائل:

جامع الترمذی: (575/2، رقم الحدیث: 1306)
عن ‌أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من أنظر معسرا أو وضع» له أظله الله يوم القيامة تحت ظل عرشه، يوم لا ظل إلا ظله.
وفي الباب عن أبي اليسر، وأبي قتادة، وحذيفة، وابن مسعود، وعبادة، وجابر.
حديث أبي هريرة حديث حسن صحيح غريب من هذا الوجه.

فتح القدير للكمال ابن الهمام: (110/8، ط: دار الفكر)
(لأن الديون تقضى بأمثالها) لا بأعيانها (إذ قبض الدين نفسه) أي قبض نفس الدين (لا يتصور) لأنه وصف ثابت في ذمة من عليه (إلا أنه جعل استيفاء العين حقه من وجه) استثناء من قوله لأن الديون تقضى بأمثالها: يعني أن الديون وإن كانت تقضى بأمثالها لا بأعيانها لما ذكرنا آنفا، إلا أن قبض المثل جعل استيفاء لعين حق الدائن من وجه ولهذا يجبر المديون على الأداء، ولو كان تملكا محضا لما أجبر عليه، وكذا إذا ظفر الدائن بجنس.

واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی

Print Full Screen Views: 70 Aug 17, 2024
qarz mein diye huwe soney gold ki qeemat se cum raqam ya is soney gold ki miqdar se cum sona gold khoshi se wapas lena

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Loan, Interest, Gambling & Insurance

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.