سوال:
میرے ایک دوست کا یہ کہنا ہے کہ ہاتھ کی لکیروں سے انسان کے آنے والے وقت کے بارے میں پتا لگ جاتا ہے، کیا اس کی یہ بات درست ہے اور اس پر یقین رکھنا کیسا ہے؟
جواب: ہاتھ کی لکیروں کے بارے میں یہ عقیدہ رکھنا کہ یہ انسان کے مستقبل اور قسمت کے بارے میں خبر دیتی ہیں، غلط عقیدہ ہے، شریعت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے، کیونکہ قسمت یا مستقبل جاننے کے لیے ہاتھ دیکھنا یا دکھانا "کہانت" کہلاتا ہے، جس سے حدیثِ مبارکہ میں سختی سے منع کیا گیا ہے اور اس عمل پر سخت وعید سنائی گئی ہے، نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جس نے کسی عراف (کاہن) کے پاس جا کر اس سے (مستقبل کی) کسی چیز کے بارے میں سوال کیا تو اس کی چالیس راتوں کی نمازیں قبول نہیں ہوں گی۔(صحیح مسلم، حدیث نمبر: 2230) مذکورہ حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ ہاتھ کی لکیروں پر یقین رکھنا اور قسمت یا مستقبل جاننے کے لیے کسی کو ہاتھ دکھانا ناجائز اور حرام ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
صحیح مسلم: (رقم الحدیث: 2230، ط: دار احیاء التراث العربی)
عَنْ بَعْضِ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "مَنْ أَتَى عَرَّافًا، فَسَأَلَهُ عَنْ شَيْءٍ؛ لَمْ تُقْبَلْ لَهُ صَلَاةٌ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً".
رد المحتار: (45/1، ط: سعید)
(قوله: والكهانة) وهي تعاطي الخبر عن الكائنات في المستقبل وادعاء معرفة الأسرار. قال في نهاية الحديث: وقد كان في العرب كهنة كشق وسطيح، فمنهم من كان يزعم أن له تابعا يلقي إليه الأخبار عن الكائنات، ومنهم أنه يعرف الأمور بمقدمات يستدل بها على موافقها من كلام من يسأله أو حاله أو فعله وهذا يخصونه باسم العراف كالمدعي معرفة المسروق ونحوه، وحديث " من أتى كاهنا " يشمل العراف والمنجم. والعرب تسمي كل من يتعاطى علما دقيقا كاهنا، ومنهم من يسمي المنجم والطبيب كاهنا۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی