سوال:
ایک آدمی نے بیوی کو طلاق دینے کے لیے اپنے اور دو گواہوں کے دستخطوں کے ساتھ ایڈمنسٹریٹر یونین کونسل کے نام طلاق کا نوٹس بنوایا اور اس کی تصویر پاکستان میں موجود اہلیہ کو واٹس ایپ کر دی جس کی تحریر یہ تھی کہ میں (آگے اس نے اپنا نام ولدیت وغیرہ لکھی) اپنی بیوی (آگے اس نے بیوی کا نام وغیرہ لکھا) کو تحریری زبانی طلاق آج مورخہ (تاریخ نہیں لکھی) کو دے کر اس کا علان روبرو گواہان کر دیا ہے، لہذا علان کی اطلاع ایڈمنسٹریٹر صاحب کو پیش کرتا ہوں تاکہ قانون کے مطابق کارروائی عمل میں لائی جائے۔
خاتون کو واٹس ایپ کے ذریعے نوٹس ملے تقریباً چار مہینے ہو چکے ہیں، لیکن خاندان کے کچھ لوگ کہتے ہیں کہ طلاق ہوئی ہی نہیں، یہ محض ایک نوٹس ہے، طلاق نہیں ہے، اس لیے صلح کر لیں، جبکہ خاتون اور اس کے گھر والے کہتے ہیں کہ طلاق ہو چکی اور رجوع کا وقت بھی گزر چکا، اب صلح نہیں ہو سکتی۔ برائے مہربانی اس پر رہنمائی فرمائیں شکریہ
جواب: واضح رہے کہ زبانی طلاق کی طرح تحریری طور پر طلاق کے الفاظ لکھنے یا کسی اور سے لکھوانے سے بھی شرعاً طلاق واقع ہو جاتی ہے، سوال میں ذکر کردہ الفاظ چونکہ طلاق کے الفاظ ہیں، اس لیے اگر طلاق نامہ میں صرف ایک طلاق کا ذکر ہو تو ان الفاظ سے مذکورہ شخص کی بیوی پر ایک طلاق رجعی واقع ہوگئی ہے، اب اگر شوہر نے اس کے علاوہ کوئی اور تحریری یا زبانی طلاق نہیں دی ہو تو عدت کے زمانے میں شوہر رجوع کرسکتا ہے، لیکن اگر طلاق رجعی کے بعد عدت کا زمانہ گزر گیا ہو تو اب شوہر رجوع نہیں کرسکتا، البتہ میاں بیوی باہمی رضامندی سے نئے مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کرسکتے ہیں، دوبارہ نکاح کرنے کی صورت میں شوہر کے پاس مزید صرف دو طلاقوں کا اختیار باقی رہے گا۔
اور اگر طلاق نامہ میں تین طلاقوں کا ذکر ہو یا طلاق نامہ میں تو ایک کا ذکر ہو، لیکن شوہر اس سے پہلے کسی اور واقعہ میں دو طلاقیں دے چکا ہو تو اس صورت میں اس کی بیوی (تین طلاقیں واقع ہونے کی وجہ سے) اس پر حرام ہوگئی ہے، اب رجوع اور تجدید نکاح کی کوئی صورت ممکن نہیں ہے، یہاں تک کہ یہ عورت کسی اور مرد سے نکاح نہ کرلے اور اس کے ساتھ حقوق زوجیت ادا نہ کرلے، پھر اگر وہ طلاق دیدے یا اس کا انتقال ہو جائے تو عدت گزرنے کے بعد طرفین کی رضامندی سے نئے مہر اور دو گواہوں کی موجودگی میں اس سابقہ شوہر سے دوبارہ نکاح کیا جا سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
رد المحتار: (مطلب فی الطلاق بالکتابة، 246/3، ط: سعید)
"وإن كانت مرسومةً يقع الطلاق نوى أو لم ينو ... ولو قال للكاتب: اكتب طلاق امرأتي كان إقراراً بالطلاق وإن لم يكتب؛ ولو استكتب من آخر كتاباً بطلاقها وقرأه على الزوج فأخذه الزوج وختمه وعنونه وبعث به إليها فأتاها، وقع إن أقر الزوج أنه كتابه أو قال للرجل: ابعث به إليها، أو قال له: اكتب نسخةً وابعث بها إليها".
المبسوط للسرخسی: (19/6، ط: دار المعرفة)
(قال)، وإذا طلقها واحدة في الطهر أو في الحيض أو بعد الجماع فهو يملك الرجعة مادام في العدة لأن النبي - صلى الله عليه وسلم - «طلق سودة - رضي الله تعالى عنها - بقوله اعتدي ثم راجعها» «وطلق حفصة - رضي الله عنها - ثم راجعها بالوطء» ويستوي إن طالت مدة العدة أو قصرت لأن النكاح بينهما باق ما بقيت العدة وقد روي أن علقمة - رضي الله عنه - طلق امرأته فارتفع حيضها سبعة عشر شهرا ثم ماتت فورثه ابن مسعود - رضي الله عنه - منها وقال إن الله تعالى حبس ميراثها عليك فإذا انقضت العدة قبل الرجعة فقد بطل حق الرجعة وبانت المرأة منه، وهو خاطب من الخطاب يتزوجها برضاها إن اتفقا على ذلك.
الفتاوی الھندیة: (473/1، ط: دار الفكر)
"وَإِنْ كَانَ الطَّلَاقُ ثَلَاثًا فِي الْحُرَّةِ وَثِنْتَيْنِ فِي الْأَمَةِ لَمْ تَحِلَّ لَهُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ نِكَاحًا صَحِيحًا وَيَدْخُلَ بِهَا ثُمَّ يُطَلِّقَهَا أَوْ يَمُوتَ عَنْهَا، كَذَا فِي الْهِدَايَةِ".
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی