سوال:
میں عاجزانہ طور پر ایک ضروری شرعی مسئلہ میں رہنمائی کی طلب گار ہوں۔
پس منظر:
میری شادی سن 2010 میں ہوئی، سن 2015 میں میرے شوہر نے مجھے دو طلاقیں دیں، عدت کے اندر شوہر نے رجوع کر لیا اور ہم میاں بیوی کی طرح دوبارہ ساتھ رہنے لگے۔ سن 2022 میں ایک مرتبہ پھر شوہر نے میرے سامنے واضح اور صریح الفاظ میں طلاق دے دی، اس وقت کوئی گواہ موجود نہیں تھا۔ تاہم میں خود طلاق کے الفاظ سن چکی ہوں اور مجھے اس بات کا یقین ہے کہ طلاق دی گئی۔
بعد میں شوہر نے طلاق دینے سے انکار کر دیا اور حلف اٹھایا کہ اُس نے طلاق نہیں دی۔
اس وقت ایک دارالافتاء کے فتوے کی بنیاد پر ان کی قسم کو مان کر میں دوبارہ اُن کے ساتھ رہنے لگی، لیکن دل کو اطمینان نہ ہو سکا، اب کچھ مہینوں سے شوہر سے رابطہ منقطع ہے اور میں اپنے والدین کے گھر میں ہوں۔
سوالات:
1. کیا 2022 میں دی گئی وہ طلاق شرعی طور پر واقع ہو گئی، جب کہ صرف بیوی نے سنا ہو اور شوہر بعد میں انکار کر دے؟
2. اگر وہ طلاق واقع ہو گئی تو کیا یہ تیسری اور آخری طلاق شمار ہوگی، کیونکہ اس سے پہلے دو طلاقیں ہو چکی تھیں؟
3. اگر تین طلاقیں مکمل ہو چکی ہیں تو کیا میرا نکاح ختم ہو چکا اور کیا میرے لیے ان کے ساتھ رہنا شرعاً جائز نہیں ہے؟
براہِ کرم قرآن و سنت کی روشنی میں مفصل رہنمائی فرما دیں تاکہ میرے لیے شرعی حکم پر عمل کرنا آسان ہو۔ اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔
جواب: پوچھی گئی صورت میں اگر یقینی طور پر آپ کے شوہر نے 2022ء کو تیسری طلاق دی تھی اور آپ کو اس کا یقین بھی ہے تو اگرچہ آپ کے پاس گواہ نہ ہونے کی وجہ سے شوہر کے حق میں قسم کی بنیاد پر کیا گیا فیصلہ اس کے حق میں ظاہراً معتبر ہوگا، لیکن ایسی صورت میں دیانۃً (عند اللہ) طلاق کے وقوع کے لیے چونکہ عورت کا سننا کافی ہوتا ہے، لہذا آپ کے لیے شوہر کو اپنے اوپر قدرت دینا جائز نہیں ہے، اس لیے خاندان کے معتبر لوگوں کو درمیان میں بیٹھا کر شوہر کو خوفِ خدا وآخرت دلاتے ہوئے اس کو تیسری طلاق کے اقرار یا بیوی سے مستقل علیحدگی پر آمادہ کیا جائے، بصورتِ دیگر خلع لے کر یا کسی بھی طریقہ سے اس سے جان خلاصی حاصل کی جائے۔
تاہم اگر خلاصی کے ہر ممکن طریقہ کو اختیار کرنے کے باوجود اس کے پاس رہنے پر مجبور ہو جائے تو اس صورت میں سارا وبال اور گناہ شوہر پر ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الدلائل:
رد المحتار: (251/3/، ط: دار الفکر)
والمرأة كالقاضي إذا سمعته أو أخبرها عدل لا يحل له تمكينه. والفتوى على أنه ليس لها قتله، ولا تقتل نفسها بل تفدي نفسها بمال أو تهرب، كما أنه ليس له قتلها إذا حرمت عليه وكلما هرب ردته بالسحر. وفي البزازية عن الأوزجندي أنها ترفع الأمر للقاضي، فإنه حلف ولا بينة لها فالإثم عليه. اه. قلت: أي إذا لم تقدر على الفداء أو الهرب ولا على منعه عنها فلا ينافي ما قبله.
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی