عنوان: پیشگی اطلاع (Notice) كے بغیر ملازمت چھوڑنے کی صورت میں ملازم کے پیسے روک لینا (19219-No)

سوال: محترم مفتی صاحب! شریعت کی روشنی میں مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں رہنمائی درکار ہے۔
زيد نے ماہانہ اجرت پر ایک کمپنی سے معاہدہ کیا جس میں کام چھوڑنے کی صورت میں پیشگی دو ماہ یعنی ساٹھ دن کے تحریری نوٹس دینے کی شرط بھی تھی۔ زيد نے کچھ عرصہ بعد پندرہ دن کے نوٹس پر کمپنی کا کام کرنا چھوڑ دیا جس پر کمپنی کو مالی نقصان برداشت کرنا پڑا اور کمپنی نے پینتالیس دن کے پیسے زيد کو ادا نہیں کیے۔ کیا کمپنی کا یہ اقدام شریعت کی روشنی میں جائز تھا؟

جواب: واضح رہے کہ ملازمت کے معاہدہ میں ملازمت چھوڑنے کے لیے مخصوص دنوں کے پیشگی اطلاع (notice) دینے کی شرط لگانا شرعاً درست ہے، ملازم کے لیے اس معاہدہ پر حتی الامکان عمل کرنا شرعاً ضروری ہوگا، تاہم محض معاہدہ کی خلاف ورزی کی وجہ سے کمپنی کا ملازم سے جرمانہ لینا شرعاً درست نہیں ہے، البتہ اگر اس کی خلاف ورزی کی وجہ سے کمپنی کا کوئی حقیقی نقصان ہوا ہو تو اس نقصان کے بقدر ملازم سے اس کی تلافی کروائی جاسکتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

القرآن الکریم: (بنی اسرائیل، الآیة: 34)
واوفوا بالعھد ان العھد کان مسئولا

أحکام القرآن للجصاص: (372/2، ط: دار الکتب العلمیة)
وقوله صلی الله علیه وسلم: والمسلمون عند شروطہم فی معنی قول الله تعالیٰ (اوفوا بالعقود) وھو عموم فی ایجاب الوفاء بجمیع ما یشترط الانسان علی نفسه مالم تقم دلالة تخصصه

شرح المجلة:(1/264، مادة: 97، ط.رشیدیة)
"لایجوز لأحد أن یاخذ مال أحد بلا سبب شرعي

فقه البیوع: (113/1، ط: معارف القرآن)
"لا یجوز أن یحمل المتخلف عن الوعد تعویضا الا بمقدار الخسارة الفعلية التی اصیب به الطرف الآخر مثل ان یضطر البائع الی بیع المبیع باقل من سعر تکلفته. والله سبحانہ وتعالی اعلم"

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی

Print Full Screen Views: 67 Aug 27, 2024

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Employee & Employment

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.