سوال:
مفتی صاحب! کیا وضو کے فرائض ادا کر کے قرآن شریف کی تلاوت کی جاسکتی ہے؟
جواب: واضح رہے کہ وضو کے چار فرائض کے علاوہ وضو میں کچھ افعال سنت مؤکدہ اور مستحب بھی ہیں، اور سنت مؤکدہ کا حکم یہ ہے کہ بلا عذر اس کو ترک کرنا جائز نہیں ہے، ایسا کرنے والا گناہگار ہوگا۔
اس لیے اگر کبھی کسی مجبوری کی وجہ سے آپ وضو کے صرف چار فرائض ادا کرلیں تو آپ کا وضو ہو جائے گا اور اس وضو سے نماز پڑھنا اور قرآن مجید کو ہاتھ لگانا جائز ہوگا، لیکن اس طریقہ کے مطابق وضو کو معمول بنانا اور بلا عذر سنن و مستحباتِ وضو کو چھوڑنے کی عادت بنالینا درست نہیں ہے، اس لیے آپ کو چاہیے کہ سنن و مستحبات کی رعایت کرتے ہوئے اچھی طرح مسنون طریقہ کے مطابق وضو کرنے کا اہتمام کریں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن ابی داؤد: (رقم الحدیث: 97، ط: دار الرسالة العالمیة)
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى قَوْمًا وَأَعْقَابُهُمْ تَلُوحُ فَقَالَ وَيْلٌ لِلْأَعْقَابِ مِنْ النَّارِ أَسْبِغُوا الْوُضُوءَ
مختصر القدوري: (كتاب الطهارة، ص: 11، ط: دار الكتب العلمية)
وسنن الطهارة: وغسل اليدين قبل إدخالها إذا استيقظ المتوضئ من نومه، وتسمية الله تعالى في ابتداء الوضوء، والسواك، والمضمضة، والأستنشاق، ومسح الأذنين، وتخليل اللحية والأصابع، وتكرار الغسل إلى الثلاث
الدر المختار: (12/2، ط: دار الفکر)
(قوله وسن مؤكدا) أي استنانا مؤكدا؛ بمعنى أنه طلب طلبا مؤكدا زيادة على بقية النوافل، ولهذا كانت السنة المؤكدة قريبة من الواجب في لحوق الإثم كما في البحر، ويستوجب تاركها التضليل واللوم كما في التحرير: أي على سبيل الإصرار بلا عذر
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی