عنوان: بچوں کو مغرب کے وقت گھر سے باہر جانے کی حدیث میں ممانعت اور بچے کا نماز کے لیے مغرب کے وقت مسجد جانے میں مطابقت(1931-No)

سوال: حدیث مبارک میں آتا ہے کہ اپنے بچوں کو سات سال کی عمر میں نماز کی ترغیب دو اور جب وہ دس سال کے ہوجائیں تو نماز نہ پڑھنے پر ان کی پٹائی کرو، ایک بچہ دس سال کا ہے وہ اپنے والد کے ساتھ مسجد میں نماز کے لیے جاتا ہے، کبھی بچے کا والد نہیں ہوتا تو بچہ نماز کے لیے اکیلے مسجد چلا جاتا ہے۔ اب مسئلہ یہ آرہا ہے کہ ایک دوسری حدیث ہے، جس میں بہت سی اور باتوں کے ساتھ یہ بات بھی ارشاد فرمائی گئی ہے کہ جب اندھیرا چھانے لگے تو بچوں کو گھر سے باہر جانے سے روک دو، کیونکہ یہ شیاطین کے پھیلنے کا وقت ہوتا ہے، جب کچھ وقت گزر جائے، تب بچوں کو باہر بھیج سکتے ہیں۔ اس حدیث کی رو سے بچہ مغرب کی نماز کے لیے گھر سے مسجد نہیں جاسکے گا۔
اس سلسلے میں رہنمائی فرمائیں اور ان دونوں حدیثوں کا مفہوم سمجھا دیں۔

جواب: واضح رہے کہ وہ حدیث مبارک جس میں بچے کو نماز کی ترغیب دینے کا کہا گیا ہے، اس میں "مروا صبیانکم بالصلاۃ" کا لفظ آیا ہے، "صلاۃ بالجماعۃ" ( جماعت سے مسجد میں نماز پڑھنا) اس کا ذکر نہیں ہے، لہذا بچے کو مسجد بھیج کر نماز پڑھوانا اس کے مفہوم میں شامل ہی نہیں ہے، کیونکہ گھر میں بھی نماز پڑھوائی جاسکتی ہے، دوسری بات یہ کہ نابالغ بچہ ابھی نماز ہی کا مکلف نہیں ہے، چہ جائیکہ وہ جماعت کا پابند ہو، لہذا مغرب کے وقت بچوں کو باہر جانے سے روکنے والی حدیث سے اس حدیث " مروا صبیانکم بالصلاۃ۔۔۔۔۔الخ" سے تعارض نہیں آئے گا"۔
جہاں تک دوسری حدیث کا تعلق ہے، جس میں بچوں کو مغرب (اندھیرا چھانے )کے وقت باہر جانے سے ممانعت آئی ہے، اس حدیث کی تشریح میں محدثین نے تحریر کیا ہے کہ لوگوں کی مصلحت کے پیش نظر یہ حکم دیا گیا ہے، لہذا اس پر عمل کرنا مستحب ہے، واجب نہیں ہے، چنانچہ اس سلسلے میں علامہ ابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ کی ایک توجیہ جس پر عمل کرتے ہوئے بچے کو مغرب کے وقت مسجد بھیجا جاسکتا ہے۔
علامہ ابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ کی توجیہ:
"انما خیف علی الصبیان فی تلک الساعۃ؛ لان النجاسۃ التی تلوذ بہا الشیاطین موجودۃ معہم غالبا، الذکر الذی یحرز منھم مفقود من الصبیان".
ترجمہ:
بچوں کو اس وقت( اندھیرا چھانے کے) جو باہر جانے سے روکا گیا، یہ شیاطین و جنات کے شر سے بچانے کے لیے ہے، بچوں کے بارے میں یہ اندیشہ اس لیے ہوتا ہے کہ عام طور پر بچے پاکیزگی کا خیال نہیں رکھتے، ان کے ساتھ نجاست لگی ہوتی ہے، جبکہ شیاطین ایسے ہی موقع کی تلاش میں ہوتے ہیں، جہاں گندگی ہو، اس کے ساتھ ساتھ شیاطین و جنات کے شر سے بچاؤ کے جو ذکر و اذکار ہیں، بچوں میں ان کے پڑھنے کا بھی شعور نہیں ہوتا، اس لیے ان پر جنات و شیاطین کا اثر پڑنے کا اندیشہ رہتا ہے۔

مذکورہ بالا توجیہ کی روشنی میں ایسا بچہ جو شعور کی عمر کو پہنچ چکا ہو، اپنی پاکیزگی کا خیال رکھتا ہو، عموما دس سال کے بچے میں یہ شعور پیدا ہوجاتا ہے، جبکہ وہ نماز پڑھنے کے لیے جارہا ہو، اس میں شیاطین کے مسلط ہونے کا ڈر ہی نہیں ہے، کیونکہ وہ مسجد سے دور بھاگتے ہیں۔
خلاصہ:
مغرب کی نماز میں سمجھدار بچہ مسجد چلا جائے، تو اس کی گنجائش ہے۔
نماز کے علاوہ دوسرے کام کے لیے اگر جائے گا، تو وہ اس ممانعت میں داخل ہوگا۔
ذیل میں پہلے حدیث ذکر کی جاتی ہے، پھر عربی میں محدثین کی تشریح نقل کی جاتی ہے۔
فی صحیح البخاری:
"5623 - حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، أَخْبَرَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَطَاءٌ: أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا كَانَ جُنْحُ اللَّيْلِ، أَوْ أَمْسَيْتُمْ، فَكُفُّوا صِبْيَانَكُمْ، فَإِنَّ الشَّيَاطِينَ تَنْتَشِرُ حِينَئِذٍ، فَإِذَا ذَهَبَ سَاعَةٌ مِنَ اللَّيْلِ فَحُلُّوهُمْ، فَأَغْلِقُوا الأَبْوَابَ وَاذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ، فَإِنَّ الشَّيْطَانَ لاَيَفْتَحُ بَابًا مُغْلَقًا، وَأَوْكُوا قِرَبَكُمْ وَاذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ، وَخَمِّرُوا آنِيَتَكُمْ وَاذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ، وَلَوْ أَنْ تَعْرُضُوا عَلَيْهَا شَيْئًا، وَأَطْفِئُوا مَصَابِيحَكُمْ».
قال النووي في شرح صحيح مسلم:
قَوْله: جُنْح اللَّيْل هُوَ ظَلَامه، وَيُقَال: أَجْنَحَ اللَّيْل أَيْ: أَقْبَلَ ظَلَامه. فَكُفُّوا صِبْيَانكُمْ أَيْ: اِمْنَعُوهُمْ مِنْ الْخُرُوج ذَلِكَ الْوَقْت. وقال الشبيهي الإدريسي في الفجر الساطع على الصحيح الجامع: إِذَا كَانَ جُنْحُ اللَّيْلِ: أي أوله عند غروب الشمس".
وفی صحیح المسلم:
"قال رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا تُرْسِلُوا فَوَاشِيَكُمْ وَصِبْيَانَكُمْ إِذَا غَابَتْ الشَّمْسُ حَتَّى تَذْهَبَ فَحْمَةُ الْعِشَاءِ فَإِنَّ الشَّيَاطِينَ تَنْبَعِثُ إِذَا غَابَتْ الشَّمْسُ حَتَّى تَذْهَبَ فَحْمَةُ الْعِشَاءِ." رواه مسلم.
قال النووي:
الْفَوَاشِي كُلّ مُنْتَشِر مِنْ الْمَال كَالْإِبِلِ وَالْغَنَم وَسَائِر الْبَهَائِم وَغَيْرهَا، وَفَحْمَة الْعِشَاء ظُلْمَتهَا وَسَوَادهَا، وَفَسَّرَهَا بَعْضهمْ هُنَا بِإِقْبَالِهِ وَأَوَّل ظَلَامه، وَكَذَا ذَكَرَهُ صَاحِب نِهَايَة الْغَرِيب، قَالَ: وَيُقَال لِلظُّلْمَةِ الَّتِي بَيْن صَلَاتَيْ الْمَغْرِب وَالْعِشَاء: الْفَحْمَة، وَلِلَّتِي بَيْن الْعِشَاء وَالْفَجْر الْعَسْعَسَة".

وفی مرقاۃ المفاتیح:
" قال القرطبی : جمیع اوامر ھذا الباب من باب الارشاد الی المصلحۃ، ویحتمل ان تکون للندب".
( مرقاۃ المفاتیح: باب تغطیۃ الاوانی: ٧/ ٢٧۵٨ مکتبۃ الشاملۃ)
وفی شرح الامام لابن دقیق العید:
" السابعۃ و الاربعون : ھذہ الاوامر التی اوردت فی ھذا الحدیث، لم یحملہا الاکثرون علی الوجوب".
(شرح الامام باحادیث الاحکام: ٢/ ۵۵٩)
وفی فیض القدیر للشوکانی:
"(فکفوا صبیانکم) ضموھم وامنعوھم من الخروج ندبا"
( فیض القدیر شرح الجامع الصغیر: ١/ ۴٢٣)
(وکذا فی فتح الباری شرح صحیح البخاری: ١١/ ٨٧)

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 3045 Aug 07, 2019
bacho ko maghrib kay waqt ghar say baahir janay ki mumanaat or bachay ka namaz kay liye maghrib kay waqt masjid jana in dono baton par amal kese hoga?, The hadeeth prohibits children from going out of the house after maghrib and the child goes to the mosque for maghrib prayers, How will these two cases be implemented / acted?

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Interpretation and research of Ahadees

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.