عنوان: سامری کی پرورش سے متعلق واقعے کی تحقیق اور اسرائیلی روایات کا حکم(1963-No)

سوال: کیا سامری جادوگر کا نام بھی موسی تھا اور اس کی پرورش حضرت جبرئیل امینؑ نے کی تھی؟

جواب: سامری کے بارے میں معارف القرآن میں مفتی شفیع عثمانی صاحب نے بحوالہ روح المعانی ذکر کیا ہے کہ مشہور یہ ہے کہ سامری کا نام موسیٰ ابن ظفر تھا۔ اور ابن جریر نے حضرت ابن عباسؓ سے روایت کیا ہے کہ موسیٰ سامری پیدا ہوا تو فرعون کی طرف سے تمام اسرائیلی لڑکوں کے قتل کا حکم جاری تھا، اس کی والدہ کو خوف ہوا کہ فرعونی سپاہی اس کو قتل کر دیں گے تو بچہ کو اپنے سامنے قتل ہوتا دیکھنے کی مصیبت سے یہ بہتر سمجھا کہ اس کو جنگل کے ایک غار میں رکھ کر اوپر سے بند کر دیا جائے، ادھر اللہ تعالیٰ نے جبرئیل امین کو اس کی حفاظت اور غذا دینے پر مامور کر دیا، وہ اپنی ایک انگلی پر شہد ایک پر مکھن ایک پر دودھ لاتے اور اس کو بچہ کو چٹا دیتے تھے یہانتکہ یہ غار ہی میں پل کر بڑا ہو گیا اور اس کا انجام یہ ہوا کہ کفر میں مبتلا ہوا اور بنی اسرائیل کو مبتلا کیا پھر قہر الٰہی میں گرفتا رہوا۔ (معارف القرآن: 165/6، ط: ادارة المعارف)
واضح رہے کہ یہ ایک اسرائیلی روایت ہے، علامہ ابن عاشور نے اپنی تفسیر "التحریرو التنویر" میں تفصیلی واقعہ نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ یہ سب اسرائیلی روایات ہیں۔
اسرائیلی روایات کے بارے میں معارف القرآن میں مندرجہ ذیل تفصیل ذکر کی گئی ہے۔
اسرائیلیات کی تین قسمیں ہیں:
۱) وہ روایات جن کی سچائی قرآن و سنت کے دوسرے دلائل سے ثابت ہے، مثلاً فرعون کا غرق ہونا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کا کوہِ طور پر تشریف لے جانا وغیرہ۔
۲) وہ روایات جن کا جھوٹ ہونا قرآن و سنت کے دوسرے دلائل سے ثابت ہے،مثلاً اسرائیلی روایات میں مذکور ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام اپنی آخری عمر میں (معاذاللہ) مرتد ہو گئے تھے، اس کی تردید قرآن کریم سے ثابت ہے، ارشاد ہے کہ وَمَا كَفَرَ سُلَيْمَانُ وَلَكِنَّ الشَّيَاطِينَ كَفَرُواْ(البقرة : 102 ) (اورسلیمانؑ کافر نہیں ہوئے،بلکہ شیاطین نے کفر کیا)۔
اسی طرح مثلا اسرائیلی روایات میں مذکور ہے کہ (معاذ اللہ) حضرت داؤد علیہ السلام نے اپنے سپہ سالار "اوریا" کی بیوی سے زنا کیا یا اسے مختلف تدبیروں سے مروا کر اس کی بیوی سے نکاح کر لیا، یہ بھی کھلا جھوٹ ہے اور اس قسم کی روایتوں کو غلط سمجھنا لازم ہے۔
۳) وہ روایات جن کے بارے میں قرآن و سنت اور دوسرے شرعی دلائل خاموش ہیں، جیسے کہ تورات کے احکام وغیرہ،ایسی روایات کے بارے میں آنحضرت ﷺ کی تعلیم یہ ہے کہ ان کے بارے میں سکوت اختیار کیا جائے، نہ ان کی تصدیق کی جائے اور نہ تکذیب، البتہ اس مسئلہ میں علماء کا اختلاف ہے کہ آیا ایسی روایات نقل کرنا جائز بھی ہے یا نہیں؟ حافظ ابن کثیر نے قولِ فیصل یہ بیان کیا ہے کہ انہیں نقل کرنا جائز تو ہے، لیکن اس سے کوئی فائدہ نہیں، کیونکہ شرعی اعتبار سے وہ حجت نہیں ہے۔ (معارف القرآن: 62/1، ط:ادارة المعارف)
خلاصۂ کلام:سوال میں ذکرکردہ واقعے کا تعلق اسرائیلیات کی تیسری قسم میں سے ہے، لہذا اس کا بیان کرنا جائز ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

روح المعاني: (554/8، ط: دار الكتب العلمية)
واسمه قيل موسى بن ظفر، وقيل: منجا، والأول أشهر، وأخرج ابن جرير عن ابن عباس أن أمه حين خافت أن يذبح خلفته في غار وأطبقت عليه فكان جبريل عليه السلام يأتيه فيغذوه بأصابعه في واحدة لبنا وفي الأخرى عسلا، وفي الأخرى سمنا ولم يزل يغذوه حتى نشأ

التحرير والتنوير لابن عاشور: (281/16، ط: دار التنسوية)
وأحسب أن هذا من آثار تلاشي التوراة الأصلية بعد الأسر البابلي، وأن الذي أعاد كتبها لم يحسن تحرير هذه القصة.

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 2205 Aug 10, 2019
saamri ki parwarish say mutalliq waqiye ki tegqeeq or isreal riwayat or in kay bayan karne ka hukum, Order / ruling about the incident related to the upbringing of the samri / Samaritans and Israeli narrations / traditions and the ruling to narrate them

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Interpretation of Quranic Ayaat

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.