عنوان: زکوة کے آٹھ مصارف کی تفصیل(2002-No)

سوال: قرآن کریم کی ایک آیت میں اپنے مال سے چھ لوگوں کو حصہ دینے کو کہا گیا ہے، فقراء، مساکین، عاملین اور اس کے علاوہ تین اور مصارف ہیں، ان سب مصارف کی وضاحت فرما دیجیے کہ یہ کون لوگ ہیں؟

جواب: سورہ توبہ آیت نمبر: 60 میں اللہ تعالی نے زکوة کے مصارف بیان فرمائے ہیں:
ارشادباری تعالی ہے : "إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَاِبْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِنْ اللَّهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ" [التوبة: الایۃ۶۰]
ترجمہ: صدقات ( زکوٰۃ) تو صرف فقیروں اور مسکینوں کے لیے اور [زکوۃ جمع کرنے والے]عاملوں کے لیے ہیں اور ان کے لیے جن کے دلوں میں الفت ڈالنی مقصود ہے اور گردنیں چھڑانے میں اور تاوان بھرنے والوں میں اور اللہ کے راستے میں اور مسافر پر (خرچ کرنے کے لیے ہیں)،یہ اللہ کی طرف سے ایک فریضہ ہے اور اللہ سب کچھ جاننے والا، کمال حکمت والا ہے۔
تشریح:
اس آیت میں زکوة کے آٹھ مصارف بیان کیے گئے ہیں جن کی تفصیل درج ذیل ہے:
١) فقیر:وہ شخص ہے جس کے پاس کچھ مال ہے، مگر اتنا نہیں کہ نصاب کو پہنچ جائے یا مال تو بقدرِ نصاب ہے، مگر ضروریات اصلیہ کے علاوہ نہیں ہے۔ ضروریات اصلیہ میں رہنے کا مکان، پہننے کے کپڑے اور استعمال کے برتن وغیرہ سب داخل ہیں۔
۲) مسکین: وہ شخص ہے جس کے پاس کچھ نہ ہو، یہاں تک کہ وہ کھاناکھانے اور بدن چھپانے کے لیے ا لوگوں سے سوال کرنے کا محتاج ہو۔
۳) عاملین:عامل وہ ہے جو اسلامی حکومت کی طرف سے صدقات، زکوٰۃ اور عشر لوگوں سے وصول کرنے کے لیے مقرر کیا گیا ہو، واضح رہے کہ عامل کے لیے فقیر ہونا شرط نہیں ہے۔
۴) مؤلفة القلوب:یہ وہ لوگ ہیں جن کی دل جوئی کے لیے ان کو صدقات دیئے جاتے تھے، ان میں مسلم اور غیر مسلم دونوں طرح کے لوگ تھے، غیر مسلموں کی دل جوئی اور اسلام کی ترغیب کے لیے اور نومسلموں کی دل جوئی اور اسلام پر پختہ کرنے کے لیے زکوة دی جاتی تھی۔
جناب رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں ان لوگوں کو ایک علت اور مصلحت کے لیے صدقات دیئے جاتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد جب اسلام کو مادی قوت بھی حاصل ہوگئی اور کفار کے شر سے بچنے اور نومسلموں کو اسلام پر پختہ کرنے کے لیے اس طرح کی تدبیروں کی ضرورت نہ رہی تو وہ علت اور مصلحت بھی ختم ہوگئی، اس لیے اب ان کا حصہ بھی ختم ہوگیا۔
۵) الرقاب:
رِقاب سے مراد وہ غلام ہے،جس کو آقا نے مال کی کوئی مقدار مقرر کرکے کہہ دیا کہ اتنامال کماکر ہمیں دو تو تم آزد ہو، اسں کو فقہاء کی اصطلاح میں "مکاتب غلام" کہا جاتا ہے، لیکن واضح رہے کہ اب نہ غلام ہیں اور نہ اس مدّ میں اس رقم کے صرف کرنے کی نوبت آتی ہے۔
۶) غارمین:غارم سے مراد مَدیون (مقروض) ہے یعنی اس پر اتنا قرض ہو کہ اسے نکالنے کے بعد نصاب باقی نہ رہے۔
۷) فی سبیل اللہ:فی سبیل اللہ کے معنی ہیں راہِ خدا میں خرچ کرنا، اس کی چند صورتیں ہیں: مثلاً کوئی مجاہد جہاد کے لیے جانا چاہتا ہے، لیکن اس کے پاس سواری ، زادراہ اور اسلحہ وغیرہ نہیں تو اسے مالِ زکوٰۃ دے سکتے ہیں یاکوئی حج کو جانا چاہتا ہے اور اس کے پاس مال نہیں ہے، اس کو زکوٰۃ دے سکتے ہیں، مگر اسے حج کے لیے سوال کرنا جائز نہیں ہےیا طالبِ علم علم دین پڑھنا چاہتا ہے، اسے بھی زکوة دے سکتے ہیں کہ یہ بھی راہِ خدا میں دینا ہے۔
۸) ابن سبیل:اس سے مراد وہ مسافر شخص ہے، جس کے پاس چاہے اپنے وطن میں نصاب کے برابر مال موجود ہو، لیکن سفر میں اس کے پاس اتنے پیسے نہ رہے ہوں، جن سے وہ اپنی سفر کی ضروریات پوری کر کے واپس وطن جاسکے۔
واضح رہے کہ زکوٰۃ کے یہ آٹھ مصارف جو یہاں قرآن کریم نے ذکر کیے ہیں، ان کی بہت مختصر تشریح ذکر کی گئی ہے،عمل کے وقت کسی عالم دین سے سمجھ کر زکوٰۃ ادا کرنی چاہیے،کیونکہ ان تمام مصارف میں شرعی احکام کی تفصیلات ہیں جن کے ذکر کا یہاں موقع نہیں ہے۔(مستفاد از معارف القرآن و آسان ترجمہ بتغییر )
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی


Print Full Screen Views: 39508 Aug 26, 2019
zakat/zakah ke/kay 8/aath masarif ki tafseel, details about the 8 masarif of zakah/zakat

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Interpretation of Quranic Ayaat

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.