سوال:
مفتی صاحب! موانع ارث کیا کیا چیزیں ہیں؟ تفصیل کے ساتھ ہر ایک کا حکم تجویز فرمادیں۔
جواب: واضح رہے کہ چار چیزیں ایسی ہیں جن کی وجہ سے وارث کو میراث نہیں ملتی ہے اور وہ چار چیزیں یہ ہیں: (1) غلامی (2) قتلِ مورث (3) اختلافِ دین (4) اختلافِ دار
(1) غلامی: غلام کسی چیز کا مالک نہیں بن سکتا ہے، غلام کے پاس جو کچھ ہوتا ہے، وہ اس کے آقا (مالک) کی ملک شمار ہوتا ہے، لہذا غلام کے کسی وراث کے مرنے کی صورت میں غلام کو ملنے والے مال کا مالک اس کا آقا ہوجائے گا، کیونکہ غلام کسی چیز کا مالک نہیں بن سکتا ہے، اس لیے غلام کو اپنے وارث کی میراث میں سے حصہ نہیں ملے گا۔ اسی طرح غلام کے انتقال پر اس کے وارثوں کو غلام کی میراث میں سے حصہ اس لیے نہیں ملتا کہ غلام جب غلامی میں مرتا ہے تو وہ کسی چیز کا مالک ہی نہیں ہوتا ہے۔
(2) قتلِ مورث: اگر مکلف (عاقل بالغ) وارث نے اپنے مورث کو ظلماً قتل کر دیا ہو تو اس قاتل وارث کو اپنے مقتول مورث کی میراث سے میں سے کچھ نہیں ملے گا، البتہ اگر غیر مکلف نابالغ یا مجنون وارث نے اپنے مورث کو قتل کر دیا ہو تو یہ دونوں مورث کی میراث سے محروم نہیں ہوں گے، کیونکہ نابالغ اور مجنون شریعت کے احکامات کے مکلّف نہیں ہوتے ہیں، اسی طرح اگر ظلماً نہیں مارا، بلکہ مورث ناحق اس پر حملہ کررہا تھا اور وارث نے اپنے آپ کو بچانے کے لیے اس پر وار کیا اور اس سے وہ مورث مر گیا تو یہ وارث میراث سے محروم نہیں ہوگا، کیونکہ یہاں وارث نے مورث کو ظلماً قتل نہیں کیا ہے۔
نوٹ: قتل سے ایسا قتل مراد ہے جس کی وجہ سے قصاص یا کفّارہ واجب ہوتا ہو۔ قتل عمد میں قصاص، جبکہ شبہ عمد، خطا اور جاری مجریٰ خطا میں کفارہ لازم ہوتا ہے، اس لیے مورث کا قاتل ان چاروں اقسام کے قتل کی وجہ سے مورث کی میراث سے محروم ہوگا، قتل بالسبب میں قصاص اور کفارہ نہیں ہوتا ہے، صرف دیت ہوتی ہے، اس لیے اس کی وجہ سے مورث کی میراث سے محروم نہیں ہوگا۔
(3) اختلافِ دین: اگر مورث کافر ہے اور وارث مسلمان ہے تو کافر مورث کی میراث مسلمان وارث کو نہیں ملے گی۔ اسی طرح اگر مورث مسلمان ہے اور وارث کافر ہے تو اس کافر کو بھی مسلمان مورث کی میراث میں سے کچھ نہیں ملے گا۔
(4) اختلافِ دار: (ممالک، وطن و سلطنت) یعنی میت اور وارث کے ملک اور وطن کا مختلف ہونا- یہ قسم صرف کفّار کے لیے ہے، جبکہ مسلمان کا وارث چاہے کتنا ہی دور کسی دوسرے ملک میں کیوں نہ رہتا ہو، اپنے مورث کے مال سے محروم نہیں ہوگا، البتہ جو لوگ مسلمان نہیں ہیں، ان میں اگر میت اور وارث دو مختلف ملکوں میں رہتے ہوں اور ان دونوں ملکوں میں باہمی صلح، تناصر و تعاون بھی نہ ہو تو ایک ملک کے رہنے والے مورث کی میراث دوسرے ملک میں رہنے والے وارث کو نہیں ملے گی، لہذا اس صورت میں کفّار کے لیے مختلف ملکوں میں رہنا میراث سے محرومی کا باعث ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار: (767/6، ط: دار الفکر)
(وموانعه) على ما هنا أربعة (الرق)۔۔۔(والقتل) الموجب للقود أو الكفارة وإن سقطا بحرمة الأبوة على ما مر۔۔۔ (واختلاف الدين) إسلاما وكفرا۔۔۔ (و) الرابع (اختلاف الدارين) فيما بين الكفار عندنا خلافا للشافعي
رد المحتار: (767/6، 768، ط: دار الفکر)
(قوله الموجب للقود أو الكفارة) الأول هو العمد وهو أن يقصد ضربه بمحدد أو ما يجري مجراه في تفريق الأجزاء، والثاني ثلاثة أقسام شبه عمد ، وهو أن يتعمد قتله بما لا يقتل غالبا كالسوط وخطأ كأن رمى صيدا فأصاب إنسانا وما جرى مجراه كانقلاب نائم على شخص أو سقوطه عليه من سطح، فخرج القتل بسبب فإنه لا يوجبهما كما لو أخرج روشنا أو حفر بئرا أو وضع حجرا في الطريق، فقتل مورثه أو أقاد دابة أو ساقها فوطئته، أو قتله قصاصا أو رجما أو دفعا عن نفسه أو وجد مورثه قتيلا في داره أو قتل العادل الباغي، وكذا عكسه إن قال قتلته وأنا على حق، وأنا الآن على الحق، وخرج القتل مباشرة من الصبي والمجنون لعدم وجوب القصاص، والكفارة وتمامه في سكب الأنهر وغيره
(قوله إسلاما وكفرا) قيد به لأن الكفار يتوارثون فيما بينهم وإن اختلفت مللهم عندنا، لأن الكفر كله ملة واحدة
(قوله والرابع اختلاف الدارين) اختلافهما باختلاف المنعة: أي العسكري، واختلاف الملك كأن يكون أحد الملكين في الهند وله دار ومنعة والآخر في الترك، وله دار ومنعة أخرى، وانقطعت للعصمة فيما بينهم، حتى يستحل كل منهم قتال الآخر فهتان الداران مختلفتان، فتنقطع باختلافهما الوراثة لأنها تبتنى على العصمة والولاية، وأما إذا كان بينهما تناصر وتعاون على أعدائهما كانت الدار واحدة والوراثة ثابتة.
(قوله بخلاف المسلمين) محترز قوله فيما بين الكفار أي اختلاف الدار لا يؤثر في حق المسلمين كما في عامة الشروح حتى إن المسلم التاجر أو الأسير لو مات في دار الحرب ورث منه ورثته الذين في دار الإسلام، كما في سكب الأنهر.
مجمع الانهر: (497/4، ط: دار الکتب العلمیة بیروت)
ويمنع الإرث الرق وافرا كان أو ناقصا لأن جميع ما في يده من المال فهو لمولاه فلو ورثناه عن أقربائه لوقع الملك لسيده فيكون توريثا للأجنبي بلا سبب وأنه باطل إجماعا والقتل كما مر تفصيله في الجنايات واختلاف الملتين فلا يرث الكافر من المسلم إجماعا ولا المسلم من الكافر على قول علي وزيد وعامة الصحابة رضي الله تعالى عنهم وإليه ذهب علماؤنا والشافعي كما مر تفصيله واختلاف الدارين حقيقة كالحربي والذمي أو حكما كالمستأمن والذمي أو الحربيين من دارين مختلفين كما مر."
البحر الرائق: (557/8، ط: دار المعرفة بیروت)
"وكذلك اختلاف الدارين سبب لحرمان الميراث لأن الميراث إنما يستحق بالنصرة ولا تناصر عند اختلاف الدارين ولكن هذا الحكم في أهل الكفر لا في حق المسلمين حتى إن المسلم إذا مات في دار الإسلام وله ابن مسلم في دار الهند أو الترك يرث ، وفي الكافي ثم اختلاف الدارين على نوعين حقيقي كالحربي مات في دار الحرب وله ابن ذمي في دار الإسلام فإنه لا يرث الذمي من ذلك الحربي وكذا لو مات ذمي في دار الإسلام وله أب أو ابن في دار الحرب فإنه لا يرث ذلك الحربي من ذلك الذمي، وحكمي كالمستأمن والذمي حتى لو مات مستأمن في دارنا لا يورث منه وارثه الذمي
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی