عنوان: تصوف اور اس کے چاروں سلسلوں کی حقیقت (20241-No)

سوال: مفتی صاحب! تصوف کیا ہے اور تصوف میں چاروں سلسلوں کی کیا حقیقت ہے؟ ایک اسکالر اس کا انکار کررہے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ یہ بعد کے لوگوں کی بنائی ہوئی چیزیں ہیں۔ براہ کرم آپ شریعت کی روشنی میں صحیح رہنمائی فرمادیں۔

جواب: قرآن و سنت کی تعلیمات کا حاصل یہ ہے کہ ہر انسان کو آخرت میں فلاح اور کامیابی حاصل ہو اور وہ اخروی رسوائی اور ناکامی سے بچ جائے۔ اسی سلسلے میں اللہ تعالی نے ہر انسان کو اپنے ظاہر کے ساتھ ساتھ اپنے باطن کی اصلاح کا حکم قرآن مجید میں بیشتر مقامات پر دیا ہے، چنانچہ اپنے اندر اچھے اخلاق (مثلاً : صبر، شکر، تقوی، اخلاص وغیرہ) پیدا کرنا اور خود کو برے اخلاق (مثلاً: تکبر، غصہ، حسد وغیرہ) سے بچانا آخرت کی کامیابی کی ضمانت ہے اور یہی تصوف کا حاصل اور اس کی حقیقت ہے، جسے قرآن مجید نے"تزکیہ نفس" کے لفظ سے تعبیر کیا ہے، چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے: قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا (سورۃ الشمس: 9)
ترجمہ: فلاح اسے ملے گی جو اس نفس کو پاکیزہ بنائے۔
نفس کی اصلاح اور تزکیہ ہی کے غرض سے ہر زمانے کے مسلمان اپنے صحیح العقیدہ اور متبع سنت بزرگوں اور مشایخ کے ہاں جا کر اپنا تزکیہ کیا کرتے تھے اور جس کے لیے مشایخ کے ہاں مختلف مراقبات اور مجاہدات رائج تھے۔ ان تمام بزرگوں کا مقصود نفس کی اصلاح تھا، لیکن تزکیہ نفس کے طریقہ کار میں فرق تھا۔ اس کی مثال ایسی ہے، جیسے تمام اطباء کسی مرض کے ازالے پر متفق ہوں، لیکن اس مرض کی تشخیص اور اس کے علاج کا طریق کار ان کے ہاں مختلف ہو۔ چنانچہ تصوف اور تزکیہ نفس کے چاروں سلسلوں (قادریہ، چشتیہ، سہروردیہ اور نقشبندیہ) کی حقیقت بس یہی ہے کہ ان تمام سلسلوں کے بزرگوں کا مقصد نفس کی اصلاح اور پاکیزگی تھا، البتہ اصلاح کے طریقہ کار اور اس کے لیے تجویز کردہ مجاہدات اور ریاضتیں سب کے ہاں کچھ فرق کے ساتھ مختلف ہیں۔
نیز ان چاروں سلسلوں کی حقیقت کے بارے میں مفتی محمود اشرف عثمانی صاحب رحمہ اللہ اپنے رسالے میں تحریر فرماتے ہیں:
"یہ چاروں سلسلے اوپر کی جانب مختلف اور مسلم جلیل القدر اولیاء اللہ کے واسطوں سے ہوتے ہوئے تابعین کرام رحمہم اللہ اور پھر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تک پہنچتے ہیں۔ ان چار سلسلوں میں بیعت کے طریقے کی انتہا خلفاء راشدین پر ہوتی ہے۔ جس کے بعد خلفاء راشدین کی یکے بعد دیگرے ایک دوسرے سے بیعت اور پھر ان خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک پر (ایمان، جہاد اور ترک معاصی پر) بیعت کسی ثبوت اور دلیل کی محتاج نہیں ہے۔"
(احقر کے اساتذہ ومشائخ کا تعارف اور احباب کے لیے مضامین تصوف، ص: 27، ط: ادارہ اسلامیات)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دلائل:

تفسير البغوي: (3/182، ط: دار طيبة للنشر والتوزيع)
{وذروا ظاهر الإثم وباطنه} يعني: الذنوب كلها لأنها لا تخلو من هذين الوجهين، قال قتادة: علانيته وسره، وقال مجاهد: ظاهر الإثم ما يعمله بالجوارح من الذنوب، وباطنه ما ينويه ويقصده بقلبه كالمصر على الذنب القاصد له.

تفسير القرطبی: (8/288، ط: دار الكتب المصرية )
يا أيها الذين آمنوا اتقوا الله وكونوا مع الصادقين (١١٩)
واختلف في المراد هنا بالمؤمنين والصادقين على أقوال ... وقيل: هم الذين استوت ظواهر هم وبواطنهم. قال ابن العربي: وهذا القول هو الحقيقة والغاية التي إليها المنتهى فإن هذه الصفة يرتفع بها النفاق في العقيدة والمخالفة في الفعل، وصاحبها يقال له الصديق كأبي بكر وعمر وعثمان ومن دونهم على منازلهم وأزمانهم.

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص کراچی

Print Full Screen Views: 82 Sep 03, 2024

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Beliefs

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.