سوال:
مفتی صاحب! کیا شادیوں میں عورتوں کا دف بجانا اور مردوں کا ڈھول بجانا جائز ہے؟ نیز کیا نکاح یا شادی کے اعلان اور خوشی کے لیے ان آلات کا استعمال درست ہے؟
جواب: (۱) شادی کے موقع پر نکاح کے اعلان اور تشہیر کی غرض سے عورتوں کے لیے دف بجانا جائز ہے، بشرطیکہ اس میں درج ذیل شرائط کا لحاظ رکھا جائے:
(الف) دف بالکل سادہ ہو، اس میں کسی قسم کا ساز یعنی گھنگھرو یا چھن چھن کرنے والی چیز نہ ہو۔
(ب)اس کو کسی گانے یا خاص طرز اور سُر کے ساتھ نہ بجایا جائے کہ جس سے کیف ومستی پیدا ہو، بلکہ بغیر کسی طرز کے ساتھ بجایا جائے
(ج) دف بجانے سے مقصود صرف نکاح کا اعلان اور اس کی تشہیر ہو۔
تاہم اگر کسی جگہ یہ احتمال ہو کہ ان تمام شرائط کا خیال نہیں رکھا جائے گا تو وہاں اس کے بجانے سے احتراز کرنا زیادہ بہتر ہے۔
(2) ڈھول بجانا جائز نہیں ہے، گناہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح: (79/10، ط: موقع المشكاة الإسلامية)
وفيه دليل على جواز ضرب الدف عند النكاح والزفاف للإعلان وألحق بعضهم الختان والعيدين والقدوم من السفر ومجتمع الأحباب للسرور وقال المراد به الدف الذي كان في زمن المتقدمين وأما ما عليه الجلاجل فينبغي أن يكون مكروها بالاتفاق
البحر الرائق: (461/7، ط: موقع الإسلام)
وروى الترمذي عن عائشة قالت : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم { أعلنوا هذا النكاح واجعلوه في المساجد واضربوا عليه بالدفوف } كذا في فتح القدير ، وفي الذخيرة ضرب الدف في العرس مختلف فيه ، ومحله ما لا جلاجل له أما ما له جلاجل فمكروه.
رد المحتار: (482/5، ط: سعید)
( قوله ضرب الدف فيه ) جواز ضرب الدف فيه خاص بالنساء لما في البحر عن المعراج بعد ذكره أنه مباح في النكاح وما في معناه من حادث سرور قال وهو مكروه للرجال على كل حال للتشبه بالنساء
رد المحتار (334/26، ط: موقع الإسلام)
وعن الحسن لا بأس بالدف في العرس ليشتهر . وفي السراجية هذا إذا لم يكن له جلاجل ولم يضرب على هيئة التطرب ا ه
کذا فی فتاویٰ محمودیہ: (11/217، ط: جامعہ فاروقیہ)
و کذا فی فتاویٰ دار العلوم دیوبند: (220/9، ط: مکتبه دار العلوم دیوبند)
و کذا فی فتاویٰ بنوری تاؤن، رقم الفتوی: 143908200846
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی