عنوان: حضرت عمرؓ کی تاریخ وفات کی تحقیق (2052-No)

سوال: مفتی صاحب ! کیا یکم محرم الحرام حضرت عمرؓ کی تاریخ وفات ہے؟ براہ مہربانی اس کی مکمل تحقیق فرمادیں۔

جواب: واضح رہے کہ کسی کی تاریخ ولادت یا وفات میں اختلاف کوئی نئی بات نہیں ہے اور نہ ہی اس اختلاف سے اس کی شخصیت پر اثر پڑتا ہے۔حضرت عمر ؓکی تاریخِ شہادت میں مختلف اقوال ملتے ہیں، لیکن جمہور مؤرخین اس پر متفق ہیں کہ آپؓ کی شہادت ماہ ذی الحجہ میں ہوئی ہے، تلاش کے باوجود یکم محرم کو شہادت کی مضبوط روایت نہیں ملی، البتہ یکم محرم الحرام کو تدفین ہوئی ہے۔ چنانچہ مشہور مفسر و مؤرخ امام ابن جریر الطبریؒ نے اپنی مشہور تصنیف تاریخ ِطبری میں اس بارے میں مختلف اقوال نقل فرمائے ہیں:
پہلا قول: یہ ہے کہ بدھ کی رات جبکہ ذی الحج میں تین دن باقی تھے کہ آپ فوت ہوگئے اور آپ کو بدھ کی صبح دفن کیا گیا۔ابوجعفر نے کہا کہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ آپ کی وفات یکم محرم الحرام سن 24 ھجری میں ہوئی ہے۔
دوسراقول: ابوبکر بن اسماعیل اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ بدھ کے دن سن 23 ھجری ذی الحج کی چار راتیں باقی تھیں کہ سیدنا عمرؓ کو زخم لگا اوراتوار کے دن سن 24 ھجری محرم کی پہلی تاریخ کو دفن کیے گئے۔
تیسرا قول:عثمان اخنسی کہتے ہیں کہ یہ وھم ہے (یعنی جو پہلے بیان ہوا)، بلکہ ذی الحج کی چار راتیں باقی تھیں کہ سیدنا عمرؓ کی وفات ہوگئی تھی یعنی 26 ذی الحجہ کو۔
چوتھا قول: حضرت عمر بروز بدھ 26 ذی الحجہ کو سن 23 ھجری کو شہید کیے گئے۔
پانچواں قول: ابن شھاب زہری کہتے ہیں کہ 23 ذی الحجہ کو زخمی کیے گئے اور وفات تین دن بعد یعنی 26 کو ہوئی۔
چھٹا قول:آپ شہید کیے گئے، جبکہ ذی الحجہ کی تین راتیں باقی تھیں۔(تاریخ الطبری:193/4۔194)
مشہور مؤرخ امام ابن اثیرؒ اپنی مشہور زمانہ کتاب "اسد الغابہ فی معرفتہ الصحابہ" میں سیدنا فاروق اعظمؓ کا یومِ شہادت یوں بیان کرتے ہیں: پہلا قول ابوبکر بن اسماعیل والا جو پہلے ذکر ہو چکا ہے۔ دوسرا قول عثمان اخنسی والا وہ بھی پہلے گزر چکا ہے۔ تیسرا قول ابن قتیبہ کی وہی روایت ہے، جس کو عثمان اخنسی نے وھم قرار دیا ہے۔(اسد الغابة: (156/4)
مشہور و قدیم سیرت نگار محمد بن سعد الزھریؒ نے اپنی شہرۂ آفاق کتاب "طبقات الکبیر" المعروف طبقات ابن سعد میں دو روایتیں نقل فرمائی ہیں: ایک "ابوبکر بن اسماعیل" اور دوسری "عثمان الاخنسی" والی جو "اسد الغابہ" کے حوالہ سے اوپر گزر چکی ہے۔
مؤرخ ابو الحسن المسعودی (متوفی٣٤٦ھ) لکھتے ہیں: حضرت عمر ؓکو ان کی خلافت کے دوران ہی حضرت مغیرہؓ بن شعبہ کے غلام ابولؤلؤ نے قتل کر دیا تھا، اس وقت سن ہجری کا 23 واں سال تھااور بدھ کا دن تھا جب کہ ماہ ذی الحجہ کے اختتام میں چار روز باقی تھے۔ (مروج الذہب: ج:2، ص:240 ،ط:المکتبة العصریہ )
مشہور مؤرخ اور مفسر ابو الفداء ابن کثیر (متوفی٧٧٤ھ) مختلف اقوال لکھتے ہیں: پہلا وہی ابوبکر بن اسماعیل والا ، دوسرا وہی عثمان الاخنسی والا،تیسرا  ابو معشر کا جو طبری کے حوالہ سے پہلے بیان ہوا،چوتھا ھشام بن محمد کا یہ بھی طبری کے حوالہ سے گزر چکا، پانچواں زہری کا یہ بھی طبری کے حوالہ سے ذکر ہو چکا ہے۔ ان تمام اقوال کو نقل کرنے کے بعد حافظ ابن کثیر اپنی رائے یوں بیان کرتے ہیں کہ  پہلا قول زیادہ مشہور ہے کہ زخم 26 کو لگا اور دفن یکم محرم کو ہوئے۔
مشہور مؤرخ علامہ ابن خلدون لکھتے ہیں: زخمی ہونے کے بعد برابر ذکر اللہ کرتے رہے، یہاں تک کہ شب چہار شنبہ 27 ذی الحجہ 23 ہجری کو اپنی خلافت کے 10 برس 6 مہینے بعد جان بحق تسلیم ہوئے۔
علامہ ابن عساکر نے تاریخ دمشق میں بہت سے اقوال نقل کیے ہیں ان میں ایک قول یکم محرم کا بھی نقل کیا ہے، لیکن وہ ضعیف ہے: حضرت عمر ؓ ذی الحجہ کے چند دن باقی تھے کہ زخمی کیے گئے اور تین دن تک زندہ رہے اور ہفتے کے دن یکم محرم کو انتقال فرماگئے، لیکن علامہ ابن عساکر نے جو تفصیل نقل کی ہے، اس سے اس قول کی یہ تاویل ہوسکتی ہے کہ 26 ذی الحجہ کو زخمی کیے گئے اور تین دن زندہ رہے اور ہفتہ کے دن محرم کی چاند رات کو وفات پاگئے اور اس کی تائید علامہ سیوطیؒ کی بات سے بھی ہوتی ہے اور خود علامہ ابن عساکرؒ نے امام المؤرخین امام واقدی سے بھی یہی نقل کیا ہے۔
علامہ جلال الدین سیوطیؒ تاریخ الخلفاء میں لکھتے ہیں: حضرت عمر بدھ کے دن26ذی الحجہ 23ھجری کو شہید ہوئےاور ہفتہ کے دن محرم کی چاند رات کو دفن کئے گئے۔
شاہ عبدالعزیر دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "رہا تاریخ کا معاملہ تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی شہادت بلا اختلاف 28 ذی الحجہ کو واقع ہوئی اور یکم محرم کو آپ مدفون ہوئے۔ (تحفہ اثنا عشریہ اردو: ص:،ط)

علامہ شبلی نعمانیؒ نے شھادت کا عنوان "حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت 26 ذوالحجہ "قائم کرکے شہادت کا مکمل واقعہ ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ حضرت عمر نے تین دن بعد انتقال کیا اور محرم کی پہلی تاریخ ہفتہ کے دن مدفون ہوئے۔ (الفاروق:ص: 148۔152، ط: المصباح، کراچی)
مفتی زین العابدین میرٹھی لکھتے ہیں: حضرت عمر کی وفات زخمی ہونے کے تیسرے دن 27 ذی الحجہ ۲۳ ہجری کو بدھ کی رات میں واقع ہوئی۔ (تاریخ ملت: ج:1،ص:291،ط:ادارہ اسلامیات، کراچی) 
خلاصہ کلام:
جمہور کے نزدیک حضرت عمر فاروق چھبیس ذی الحجہ کو زخمی ہوئے۔ بعض کے نزدیک چھبیس سے پہلے زخمی ہوئے اور بعض کے نزدیک ستائیس ذی الحج کو زخمی کیے گئے۔
اس پوری تفصیل سے یہ بات قرین قیاس معلوم ہوتی ہے جو مولانا یوسف لدھیانوی شہید نے " آپ کے مسائل اور ان کا حل" میں لکھی ہے کہ "26 ذی الحجہ 23 ہجری بروز چہار شنبہ مطابق 31 اکتوبر 644 ء کو نماز فجر میں ابو لؤلؤمجوسی کے خنجر سے زخمی ہوئے، تین راتیں زخمی حالت پر زندہ رہے، 29 ذی الحجہ 3 نومبر کو وصال ہوا، یکم محرم 24 ہجری کو روضہ اطہر میں آسودہ خاک ہوئے، حضرت صہیبؓ نے نماز جنازہ پڑھائی۔(ج:1 ص: 151،ط:مکتبہ لدھیانوی )
حقیقت یہ ہے کہ ذی الحجہ یا محرم کی تاریخوں سے حضرت فاروق اعظم کی عظمت پر کوئی فرق نہیں پڑتا، حضرت عمر، عمر رضی اللہ عنہ تھے اور فاروق اعظم تھے، اور مسلمانوں کی عزت و آبرو اور تاریخ اسلام کے ماتھے کا جھومر ہیں۔ (رضی اللہ عنہ و ارضاہ )

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

تاریخ الطبری: (193/4، 194، ط: دار التراث بیروت)
حَدَّثَنِي سَلْمُ بْنُ جُنَادَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ أَبِي ثَابِتِ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عن المسور بن مخرمة.
- وكانت أمه عاتكة بِنْتُ عَوْفٍ- قَالَ: خَرَجَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ يَوْمًا يَطُوفُ فِي السُّوقِ....قَالَ: ثُمَّ تُوُفِّيَ لَيْلَةَ الأَرْبِعَاءِ لثلاث ليال بقين من ذي الحجة سنة ثَلاثٍ وَعِشْرِينَ. قَالَ: فَخَرَجُوا بِهِ بُكْرَةَ يَوْمِ الأَرْبِعَاءِ....قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ: وَقَدْ قِيلَ إِنَّ وَفَاتَهُ كَانَتْ فِي غُرَّةِ الْمُحَرَّمِ سَنَةَ أَرْبَعٍ وَعِشْرِينَ..
حدثني أبو بكر بن إسماعيل بن محمد بْن سعد عن أبيه قال:
طعن عمر يوم الأربعاء لأربع ليال بقين من ذي الحجة سنة ثلاث وعشرين، ودفن يوم الأحد صباح هلال المحرم سنه اربع وعشرين.
قال: فذكرت ذلك لعثمان الأخنسي، فقال: ما أراك إلا وهلت، توفي عمر رضي اللَّه تعالى عنه لأربع ليال بقين من ذي الحجة،
عن أبي معشر، قال: قتل عمر يوم الأربعاء لأربع ليال بقين من ذي الحجة تمام سنة ثلاث وعشرين
عن ابني شهاب الزهري، قالوا: طعن عمر يوم الأربعاء لسبع بقين من ذي الحجة.
وحدثت عن هشام بْن مُحَمَّد، قال: قتل عمر لثلاث ليال بقين من ذي الحجة سنة ثلاث وعشرين

اسد الغابة: (156/4، ط: دار الکتب العلمیة)
روى أَبُو بَكْر بْن إِسْمَاعِيل بْن مُحَمَّد بْن سعد، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ قَالَ: طعن عُمَر يَوْم الأربعاء لأربع ليال بقين من ذي الحجة، سنة ثلاث وعشرين، ودفن يَوْم الأحد صباح هلال المحرم سنة أربع وعشرين، وكانت خلافته عشر سنين، وخمسة أشهر، وأحدًا وعشرين يومًا.
وقَالَ عثمان بْن مُحَمَّد الأخنسي: هَذَا وهم، توفي عُمَر لأربع ليال بقين من ذي الحجة، وبويع عثمان يَوْم الأثنين لليلة بقيت من ذي الحجة.
وقَالَ ابْنُ قُتَيْبَة: ضربه أَبُو لؤلؤة يَوْم الأثنين لأربع بقين من ذي الحجة، ومكث ثلاثًا، وتوفي، فصلى عَلَيْهِ صهيب، وقبر مَعَ رَسُول اللَّه صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وأبي بَكْر.
وكانت خلافته عشر سنين، وستة أشهر، وخمس ليال، وتوفي وهو ابْنُ ثلاث وستين سنة، وقيل: كَانَ عمره خمسًا وخمسين سنة، والأول أصح ما قيل فِي عُمَر..۔۔۔۔۔" و قال قتادة: طعن عمر یوم الاربعاء، ومات یوم الخمیس.

طبقات ابن سعد: (278/3، ط: دار الکتب العلمیة)
قال: أخبرنا محمد بن عمر قال: حدثني أبو بكر بن إسماعيل بن محمد بن سعد عن أبيه قال: طعن عمر بن الخطاب يوم الأربعاء لأربع ليال بقين من ذي الحجة سنة ثلاث وعشرين ودفن يوم الأحد صباح هلال المحرم سنة أربع وعشرين.
فكانت ولايته عشر سنين وخمسة أشهر وإحدى وعشرين ليلة من متوفى أبي بكر الصديق على رأس اثنين وعشرين سنة وتسعة أشهر وثلاثة عشر يوما من الهجرة.
وبويع لعثمان بن عفان يوم الاثنين لثلاث ليال مضين من المحرم. قال فذكرت ذلك لعثمان بن محمد الأخنسي فقال: ما أراك إلا قد وهلت. توفي عمر لأربع ليال بقين من ذي الحجة وبويع لعثمان يوم الاثنين لليلة بقيت من ذي الحجة فاستقبل بخلافته المحرم سنة أربع وعشرين.
قال الواقدي رحمه الله: حدثني أبو بكر بن إسماعيل بن محمد بن سعد عن أبيه قال: طعن عمر يوم الأربعاء لأربع ليال بقين من ذي الحجة سنة ثلاث وعشرين، ودفن يوم الأحد صباح هلال المحرم سنة أربع وعشرين، فكانت ولايته عشر سنين وخمسة أشهر وأحدا وعشرين يوما، وبويع لعثمان يوم الاثنين لثلاث مضين من المحرم. قال: فذكرت ذلك لعثمان الأخنس فقال:
ما أراك إلا وهلت. توفي عمر لأربع ليال بقين من ذي الحجة وبويع لعثمان لليلة بقيت من ذي الحجة فاستقبل. بخلافته المحرم سنة أربع وعشرين. وقال أبو معشر: قتل عمر لأربع بقين من ذي الحجة تمام سنة ثلاث وعشرين وكانت خلافته عشر سنين وستة أشهر وأربعة أيام....عن الزهري قال: طعن عمر يوم الأربعاء لسبع بقين من ذي الحجة والقول الأول هو الأشهر
(ج:7، ص: 138،ط: دارالفکر بیروت)

ابن خلدون: (569/2، ط: دار الفکر بیروت)
ولم يزل يذكر الله إلى أن توفي ليلة الأربعاء لثلاث بقين من ذي الحجة سنة ثلاث وعشرين، وصلّى عليه صهيب وذلك لعشر سنين وستة أشهر من خلافته.

تاریخ دمشق: (478/44، ط: دارالفکر بیروت)
أخبرنا أبو الأعز قراتكين بن الأسعد أنا أبو محمد الجوهري أنا أبو الحسن بن لؤلؤ أنا محمد بن الحسين بن شهريار نا أبو حفص الفلاس قال واستخلف أبو بكر عمر فملك عمر عشر سنين وستة أشهر وثمان ليال وطعن لليال بقين من ذي الحجة فمكث ثلاث ليال ثم مات رضي الله عنه يوم السبت لغرة المحرم سنة أربع وعشرين

ایضا: (14/44، ط: دار الفکر بیروت)
قال الواقدي فی الطبقات طعن عمر في ثلاث لیال بقین من ذي الحجة وتوفی لھلال المحرم سنة اربع وعشرین وقال فی التاریخ طعن یوم الاربعاء لأربع بقین من ذی الحجة

تاریخ الخلفاء: (ص: 109، ط: مکتبه نزار المصطفی الباز)
أصيب عمر يوم الأربعاء لأربع بقين من ذي الحجة، ودفن يوم الأحد مستهل المحرم الحرام

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 16807 Sep 04, 2019
hazrat umar razi Allah anho ki tareekh e wafat / tarikhe inteqal ki tahqeeq / tehqiq, Research on the date of death of Hazrat Umar (RA)

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Beliefs

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.