عنوان: فتنے کے زمانہ میں اپنی اصلاح کرو۔۔۔الخ حدیث کی وضاحت(2094-No)

سوال: حدیث میں آتا ہے کہ فتنے کے زمانہ میں اپنی اصلاح کرو۔۔۔الخ، معلوم یہ کرنا ہے کہ کیا وہ زمانہ آگیا ہے؟

جواب: یہ بات درست ہے کہ جس زمانے میں جی رہے ہیں، یہ فتنوں کا زمانہ ہے، لیکن اگر ہم حقیقت پسندانہ جائزہ لیں، تو ہمیں معلوم ہوگا کہ اس آخری زمانے میں بھی خیر کی شکلیں، دینی بیداری، دین کی بات سننے کے جذبے، مساجد ومدارس، تبلیغی جماعتیں، خانقاہیں وغیرہ میں ترقی واضافہ دن بدن ہو رہا ہے، الحمدللہ، اب تک ایمانی کیفیات باقی ہیں، امت میں اگرچہ خیر شر کے مقابلے میں کم ہے، لیکن خیر کی بات کرنے اور سننے اور اس پر عمل کرنے والے اب تک باقی ہیں، ابھی وہ زمانہ نہیں آیا کہ جب لوگوں کو چھوڑ کر اپنی اصلاح کی فکر شروع کر دی جائے، بلکہ اپنی اصلاح کی فکر کا حکم تو شروع سے ہے، دوسروں کی فکر بھی ساتھ ساتھ جاری رہے، ہاں! جب وہ زمانہ آجائے گا جس میں لوگوں میں اس قدر بگاڑ آجائے کہ وہ دین کی بات نہ سنیں، نہ مانیں اور ان سے مایوسی ہوجائے، تب امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے چھوڑنے کا حکم ہے۔
جب تک وہ زمانہ نہیں آتا تب تک اپنی اصلاح کی فکر کے ساتھ ساتھ، لوگوں کو بھی نیکی کی ترغیب اور برائی سے منع کرتے رہنا چاہیے۔
اس سلسلے میں قرآنی تعلیم یہ ہے:
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَيْكُمْ أَنْفُسَكُمْ لَا يَضُرُّكُمْ مَنْ ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ إِلَى اللَّهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيعًا فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ (105)
ترجمہ:
اے ایمان والو ! تم اپنی فکر کرو۔ اگر تم صحیح راستے پر ہوگے تو جو لوگ گمراہ ہیں وہ تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ اللہ ہی کی طرف تم سب کو لوٹ کر جانا ہے، اس وقت وہ تمہیں بتائے گا کہ تم کیا عمل کرتے رہے ہو۔
تفسیر:
(سورہ المآئدۃ: ۱۰۵)
مختصر تفسیر:
کفار کی جو گمراہیاں پیچھے بیان ہوئی ہیں ان کی وجہ سے مسلمانوں کو صدمہ ہوتا تھا کہ اپنی ان گمراہیوں کے خلاف واضح دلائل آجانے کے بعد اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے بار بار سمجھانے کے باوجود یہ لوگ اپنی گمراہیوں پر جمے ہوئے ہیں، اس آیت نے ان حضرات کو تسلی دی ہے کہ تبلیغ کا حق ادا کرنے کے بعد تمہیں ان کی گمراہیوں پر زیادہ صدمہ کرنے کی ضرورت نہیں، اور اب زیادہ فکر خود اپنی اصلاح کی کرنی چاہیے، لیکن جس بلیغ انداز میں یہ بات ارشاد فرمائی گئی ہے اس میں ایک تو ان لوگوں کے لئے ہدایت کا سامان ہے جو ہر وقت دوسروں پر تنقید کرنے اور ان کے عیب تلاش کرنے میں تو بڑے شوق سے مشغول رہتے ہیں، مگر خود اپنے گریبان میں منہ ڈالنے کی زحمت نہیں اٹھاتے، ان کو دوسروں کا تو چھوٹے سے چھوٹا عیب آسانی سے نظر آجاتا ہے مگر خود اپنی بڑی سے بڑی برائی کا احساس نہیں ہوتا، ہدایت یہ دی گئی ہے کہ اگر بالفرض تمہاری تنقید صحیح بھی ہو اور دوسرے لوگ گمراہ بھی ہوں تب بھی تمہیں تو اپنے اعمال کا جواب دینا ہے، اس لئے اپنی فکر کرو اور دوسروں پر تنقید کی فکر میں نہ پڑو، اس کے علاوہ جب معاشرے میں بد عملی کا چلن عام ہوجائے تو اس وقت اصلاح کی طرف لوٹنے کا بھی بہترین نسخہ یہی ہے کہ ہر شخص دوسروں کے طرز عمل کو دیکھنے کے بجائے اپنی اصلاح کی فکر میں لگ جائے، جب افراد میں اپنی اصلاح کی فکر پیدا ہوگی تو چراغ سے چراغ جلے گا اور رفتہ رفتہ معاشرہ بھی اصلاح کی طرف لوٹے گا۔
( آسان ترجمۂ قرآن
مؤلفہ: مفتی محمد تقی عثمانی
دامت برکاتھم)

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 1447 Sep 14, 2019
kia aese fitno ka zamana aa gya he / hey, jis me / mein sirf apni islaah ka hukum / hukm he?, Has the time come for such tribulations, in which only self-correction is commanded?

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Interpretation and research of Ahadees

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.