عنوان: قرض کے آداب و ضروری احکام(2125-No)

سوال: السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،
مفتی صاحب ! قرض لینے اور دینے کا شرعی طریقہ کیا ہے؟
یعنی اس معاملہ کے لین دین کرنے کے کیا فرائض، واجبات اور سنتیں ہیں؟
قرض دینے اور لینے والے کے درمیان کیا چیزیں طے ہونی لازمی ہیں؟
کیا قرض کی لین دین کا کوئی مسنون معاہدہ template مل سکتا ہے؟
جزاک اللہ خیرا

جواب: انسانی معاشرے میں اللہ تعالی نے لوگوں کی ضرورتوں کو ایک دوسرے سے جوڑ رکھا ہے، اسی سلسلے میں قرض بھی انسانی ضروریات میں سے ہے۔
اس کے احکام و آداب شریعت اسلامی میں بہت تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں، حتی کہ قرآن کریم کی سب سے بڑی آیت، قرض کے لین دین کے ہی احکام و آداب کے بارے میں نازل ہوئی ہے، اس سے اس معاملے کی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
انہی احکام و آداب میں سے چند کا ذکر کیا جاتا ہے:
قرض لینے کے احکام و آداب
۱- بلا مجبوری قرضہ لینا ناپسندیدہ ہے:
شریعت بغیر کسی شدید مجبوری کے، قرض لینے کو اچھا نہیں سمجھتی، لہذا جب کوئی معقول اور جائز ضروری حاجت قرض لیے بغیر پوری نہ ہورہی ہو، تب قرض لینا چاہیے۔
(واضح رہے کہ شدید مجبوری میں بھی سودی قرضہ لینے کی قطعا اجازت نہیں ہے۔)
۲- قرض لیتے وقت آپس میں تحریری معاھدہ کرنا:
دو گواہوں کی موجودگی میں قرض کا معاھدہ لکھ لیا جائے، جس میں قرض خواہ اور قرض دھندہ کا مکمل تعارف ہو، قرض کی رقم لکھی ہو، کتنی مدت کے لیے قرض دیا جارہا ہے، یہ بات طے ہو اور واپسی کی تاریخ بھی متعین ہو، تاکہ کل کو اس بارے میں جھگڑا نہ ہو۔
لیکن چونکہ قرضہ فی نفسہ تبرع (احسان کا معاملہ )ہے، لہذا واپسی کی تاریخ متعین ہونے کے باوجود قرض دھندہ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ جب چاہے، واپسی کا مطالبہ کر سکتا، اگر وہ اپنے طور واپسی کی تاریخ ہی کی پابندی کرتا ہے اور اس سے قبل مطالبہ نہیں کرتا تو یہ اس کا دوسرا تبرع ہے۔
( قرض کا معاھدہ فارم:
فی الحال ہماری نظر میں قرض معاھدے کا نمونہ موجود نہیں ہے، اگر میسر آگیا تو ارسال کر دیا جائے گا، تاہم حسب موقع فریقین باہمی رضامندی سے معاھدہ لکھ کر درالافتاء بھیج کر اس تصدیق کروا سکتے ہیں)
۳- قرض خواہ کی ذمہ داری:
قرض لے کر اسے واپس ادا کرنے کی بھر پور کوشش کرنی چاہیے اور اس سلسلے میں مکمل ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے، یہی وجہ ہے کہ شریعت نے قرض دھندہ کے مال کے تحفظ کے لیے مقروض سے کوئی چیز لے کر گروی رکھنے کی بھی اجازت دی ہے، لہذا قرضہ لینے سے پہلے واپسی کے امکانات کا جائزہ لینا ضروری، صرف دوسرے کو جھوٹا آسرا دینا اور وعدے پر وعدہ کرنا، آپس میں نفرت کو جنم دیتا ہے، اگر واپسی کا بظاہر کوئی امکان نہ ہو، تو قرض دھندہ سے واضح طور پر کہہ دینا چاہیے: کہ میری مالی حالت یہ ہے، تاکہ وہ سوچ سمجھ کر قرض دینے کا فیصلہ کرے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
اللہ تعالیٰ شہید کے تمام گناہوں کو معاف کردیتا ہے، مگر کسی کا قرضہ معاف نہیں کرتا۔
( صحیح مسلم)
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
جو شخص کسی سے اس نیت سے قرض لے کہ وہ اس کو ادا کرے گا، تو اللہ تعالیٰ اس کے قرض کی ادائیگی کے لئے آسانی پیدا کرتا ہے، اور اگر قرض لیتے وقت اس کا ارادہ ہڑپ کرنے کا ہے، تو اللہ تعالیٰ اسی طرح کے اسباب پیدا کرتا ہے جس سے وہ مال ہی برباد ہوجاتا ہے۔ ( صحیح البخاری)
۴- مقروض باوجود قدرت کے ٹال مٹول نہ کرے:
جو لوگ قرض کی واپسی پر قدرت رکھنے کے باوجود، اس میں ٹال مٹول سے کام لیتے ہیں، ایسے لوگوں کے بارے میں احادیث میں سخت وعید آئی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
اگر کوئی شخص اس نیت سے قرض لیتا ہے کہ وہ اس کو بعد میں ادا نہیں کرے گا، تو وہ چور کی حیثیت سے اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش کیا جائے گا۔
( سنن ابن ماجہ)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
قرض کی ادائیگی پر قدرت کے باوجود وقت پر قرض کی ادائیگی میں ٹال مٹول کرنا ظلم ہے۔ ( صحیح بخاری و مسلم)
قرض کی ادائیگی پر قدرت کے باوجود قرض کی ادائیگی نہ کرنے والا ظالم وفاسق ہے۔ ( شرح النووی لصحیح المسلم، فتح الباری شرح صحیح البخاری)
ذیل میں قرض دینے کے چند احکام و مسائل لکھے جاتے ہیں:
قرض دینے کی فضیلت:
قرآن وحدیث میں محتاج لوگوں کی مدد کرنے کی ترغیب آئی :
ترجمہ:
بھلائی کے کام کرو تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ۔
(سورہ الحج ۷۷)
ترجمہ:
اچھے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرو۔
(سورہ المائدہ ۲)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
جس شخص نے کسی مسلمان کی کوئی بھی دنیاوی پریشانی دور کی ، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی پریشانیوں کو دور فرمائے گا۔ جس نے کسی پریشان حال آدمی کے لئے آسانی کا سامان فراہم کیا، اللہ تعالیٰ اس کے لئے دنیاو آخرت میں سہولت کا فیصلہ فرمائے گا۔ اللہ تعالیٰ اس وقت تک بندہ کی مدد کرتا ہے، جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا رہے۔
( صحیح مسلم)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اگر کوئی مسلمان کسی مسلمان کو دو مرتبہ قرضہ دیتا ہے تو ایک بار صدقہ ہوتا ہے۔
(نسائی ، ابن ماجہ)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
شب معراج میں میں نے جنت کے دروازہ پر صدقہ کا بدلہ ۱۰ گنا اور قرضہ دینے کا بدلہ ۱۸ گنا لکھا ہوا دیکھا۔ میں نے کہا اے جبرئیل! قرض صدقہ سے بڑھ کر کیوں؟ جبرئیل علیہ السلام نے فرمایا کہ سائل مانگتا ہے، جبکہ اس کے پاس کچھ مال موجود ہو، اور قرضدار ضرورت کے وقت ہی سوال کرتا ہے۔
( سنن ابن ماجہ)
حضرت ابودرداء ؓ فرماتے ہیں کہ میں کسی مسلمان کو ۲ دینار قرض دوں، یہ میرے نزدیک صدقہ کرنے سے زیادہ بہتر ہے۔ ۔۔ (کیونکہ قرض کی رقم واپس آنے کے بعد اسے دوبارہ صدقہ کیا جاسکتا ہے یا اسے بطور قرض کسی کو دیا جاسکتا ہے،نیز اس میں واقعی محتاج کی ضرورت پوری ہوتی ہے)۔ (السنن الکبری للبیہقی)
۱- قرض دینے والے کو قرض پر کسی قسم کا نفع لینا ناجائز ہے۔
۲- تنگ دست مقروض کو مہلت دینا بھی اجر و ثواب کا باعث ہے۔
فی الحال اس مختصر تحریر میں اتنا ہی لکھا جاسکتا ہے، مزید کوئی سوال و جواب ہو تو اسے لکھ کر بھیجیں، اس کا جواب لکھ جائے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

القرآن الکریم: (البقرة، الآیۃ: 282)
یٰاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا تَدَایَنۡتُمۡ بِدَیۡنٍ اِلٰۤی اَجَلٍ مُّسَمًّی فَاکۡتُبُوۡہُ ؕ وَ لۡیَکۡتُبۡ بَّیۡنَکُمۡ کَاتِبٌۢ بِالۡعَدۡلِ ۪ وَ لَا یَاۡبَ کَاتِبٌ اَنۡ یَّکۡتُبَ کَمَا عَلَّمَہُ اللّٰہُ فَلۡیَکۡتُبۡ ۚ وَ لۡیُمۡلِلِ الَّذِیۡ عَلَیۡہِ الۡحَقُّ وَ لۡیَتَّقِ اللّٰہَ رَبَّہٗ وَ لَا یَبۡخَسۡ مِنۡہُ شَیۡئًا ؕ فَاِنۡ کَانَ الَّذِیۡ عَلَیۡہِ الۡحَقُّ سَفِیۡہًا اَوۡ ضَعِیۡفًا اَوۡ لَا یَسۡتَطِیۡعُ اَنۡ یُّمِلَّ ہُوَ فَلۡیُمۡلِلۡ وَلِیُّہٗ بِالۡعَدۡلِ ؕ وَ اسۡتَشۡہِدُوۡا شَہِیۡدَیۡنِ مِنۡ رِّجَالِکُمۡ ۚ فَاِنۡ لَّمۡ یَکُوۡنَا رَجُلَیۡنِ فَرَجُلٌ وَّ امۡرَاَتٰنِ مِمَّنۡ تَرۡضَوۡنَ مِنَ الشُّہَدَآءِ اَنۡ تَضِلَّ اِحۡدٰٮہُمَا فَتُذَکِّرَ اِحۡدٰٮہُمَا الۡاُخۡرٰی ؕ وَ لَا یَاۡبَ الشُّہَدَآءُ اِذَا مَا دُعُوۡا ؕ وَ لَا تَسَۡٔمُوۡۤا اَنۡ تَکۡتُبُوۡہُ صَغِیۡرًا اَوۡ کَبِیۡرًا اِلٰۤی اَجَلِہٖ ؕ ذٰلِکُمۡ اَقۡسَطُ عِنۡدَ اللّٰہِ وَ اَقۡوَمُ لِلشَّہَادَۃِ وَ اَدۡنٰۤی اَلَّا تَرۡتَابُوۡۤا اِلَّاۤ اَنۡ تَکُوۡنَ تِجَارَۃً حَاضِرَۃً تُدِیۡرُوۡنَہَا بَیۡنَکُمۡ فَلَیۡسَ عَلَیۡکُمۡ جُنَاحٌ اَلَّا تَکۡتُبُوۡہَا ؕ وَ اَشۡہِدُوۡۤا اِذَا تَبَایَعۡتُمۡ ۪ وَ لَا یُضَآرَّ کَاتِبٌ وَّ لَا شَہِیۡدٌ ۬ؕ وَ اِنۡ تَفۡعَلُوۡا فَاِنَّہٗ فُسُوۡقٌۢ بِکُمۡ ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ ؕ وَ یُعَلِّمُکُمُ اللّٰہُ ؕ وَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیۡءٍعَلِیۡمٌo

صحیح البخاری: (رقم الحدیث: 2387)
عن أبي هريرة رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «من أخذ أموال الناس يريد أداءها أدى الله عنه، ومن أخذ يريد إتلافها أتلفه الله»

و فیہ ایضا: (رقم الحدیث: 2391)
عن حذيفة رضي الله عنه، قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول: " مات رجل، فقيل له، قال: كنت أبايع الناس، فأتجوز عن الموسر، وأخفف عن المعسر، فغفر له " قال أبو مسعود: سمعته من النبي صلى الله عليه وسلم۔

و فیہ ایضا: (رقم الحدیث : 2393)
عن أبي هريرة رضي الله عنه، قال: كان لرجل على النبي صلى الله عليه وسلم سن من الإبل، فجاءه يتقاضاه، فقال: «أعطوه»، فطلبوا سنه، فلم يجدوا له إلا سنا فوقها، فقال: «أعطوه»، فقال: أوفيتني أوفى الله بك، قال النبي صلى الله عليه وسلم: «إن خياركم أحسنكم قضاء».

و فیہ ایضا: (رقم الحدیث: 2287)
عن أبي هريرة رضي الله عنه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «مطل الغني ظلم، فإذا أتبع أحدكم على ملي فليتبع»

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 8862 Sep 19, 2019
qarz ke / kay adaab wa zaroori ehkaam / ehkam, Debt Etiquette and Necessary Rules

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Loan, Interest, Gambling & Insurance

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.