عنوان: نماز سے گناہ جھڑنے والی حدیث مبارکہ میں صرف صغیرہ گناہ مراد ہیں یا کبیرہ بھی شامل ہیں؟ (21255-No)

سوال: حضرت ابو ذررضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک دن سردی کے ایام میں باہر تشریف لے گئے اور درختوں کے پتے (خزاں کے سبب سے) از خود جھڑ رہے تھے، آپ ﷺ نے ایک درخت کی دو ٹہنیوں کو پکڑا (اور ہلایا) تو ایک دم اس کے پتے جھڑنے لگے، پھر حضور ﷺ نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا: اے ابو ذر! میں نے عرض کیا حاضر ہوں یا رسول اللہ ﷺ! آپ ﷺ نے فرمایا جب مؤمن بندہ خالص اللہ تعالیٰ کے لئے نماز پڑھتا ہے تو اس کے گناہ ان پتوں کی طرح جھڑ جاتے ہیں۔
مفتی صاحب! مندرجہ بالا حدیث میں جن گناہوں کے معاف ہونے کا ذکر ہے وہ صرف گناہ صغیرہ ہیں یا گناہ کبیرہ بھی معاف ہو جاتے ہیں؟ وضاحت فرمادیں۔

جواب: نماز سے گناہ جھڑنے کی روایات میں حضرات شراح اور فقہاء رحہم اللہ تعالی کے نزدیک صغیرہ گناہ مراد ہیں، کبیرہ گناہ سچے دل سے توبہ کرنے سے معاف ہوتے ہیں، جبکہ وہ گناہ جو حقوق العباد سے متعلق ہوں جن میں کسی بندے کی حق تلفی ہوئی ہو، ان میں توبہ کے ساتھ متعلقہ شخص کا حق ادا کرنا یا اس سے معاف کرانا بھی ضروری ہے۔ نیز حقوق اللہ (نماز، روزہ، زکوۃ، حج وغیرہ) اگر ذمہ میں ہوں تو توبہ کے ساتھ ان کی ادائیگی کا اہتمام شروع کرنا بھی ضروری ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

مسند أحمد: (رقم الحدیث:21556، ط: الرسالة)
حدثنا أبو عامر، حدثنا عبد الجليل يعني ابن عطية، حدثنا مزاحم بن معاوية الضبي، عن ‌أبي ‌ذر، أن النبي صلى الله عليه وسلم خرج زمن ‌الشتاء والورق يتهافت، فأخذ بغصنين من شجرة، قال: فجعل ذلك الورق يتهافت، قال: فقال: "يا أبا ذر " قلت: لبيك يا رسول الله. قال: "إن العبد المسلم ليصلي الصلاة يريد بها وجه الله، فتهافت عنه ذنوبه كما يتهافت هذا الورق عن هذه الشجرة "»

أيضا: (رقم الحديث: 8924، ط: الرسالة)
حدثنا قتيبة بن سعيد، قال: حدثنا بكر بن مضر، عن ابن الهاد، عن محمد بن إبراهيم، عن أبي سلمة، عن أبي هريرة، أنه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " أرأيتم لو أن نهرا بباب أحدكم يغتسل منه كل يوم خمس مرات، ما تقولون؟ هل يبقى من درنه؟ " قالوا: لا يبقى من درنه شيء، قال: " ذاك مثل الصلوات الخمس، يمحو الله بها الخطايا".

مسند أبي داود الطيالسي: (رقم الحديث: 687، دار هجر - مصر)
حدثنا ‌يونس ، قال: حدثنا ‌أبو داود ، قال: حدثنا ‌حماد بن سلمة ، عن ‌علي بن زيد ، عن ‌أبي عثمان ، قال: «كنت مع ‌سلمان تحت شجرة فأخذ غصنا منها يابسا فهزه فتحاتت ورقه، فقال: ألا تسألني لم أفعل هذا؟ قلت: ولم تفعله؟ قال: هكذا فعله رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم قال: يا سلمان، ألا تسألني لم أفعل هذا؟، قلت: ولم تفعل هذا يا رسول الله؟ قال: إن المسلم إذا توضأ فأحسن ‌الوضوء ثم صلى ‌الصلوات الخمس، قال: أحسبه قال: في جماعة تحاتت ‌خطاياه كما تحات ورق هذه الشجرة، وتلا رسول الله صلى الله عليه وسلم: {وأقم الصلاة طرفي النهار وزلفا من الليل إن الحسنات يذهبن السيئات}»

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح: (2/ 507، ط: دار الفكر)
(مثل الصلوات الخمس) : وتطهيره مثل تكفيرها، وعكس في التشبيه حيث إن الأصل تشبيه المعقول بالمحسوس مبالغة ; كقوله تعالى: {قالوا إنما البيع مثل الربا} [البقرة: 275] (يمحو الله بهن) : أي: بالصلوات فالنسبة في مكفرات مجازية (الخطايا) : أي: الصغائر، والجملة مبينة لوجه الشبه، وهو أن الذنوب كالوسخ ; لأنها توسخ الظاهر والباطن، والصلاة تزيل تلك الأوساخ والأقذار الحسية والمعنوية، كما أن النهر يزيل الأوساخ الحسية، وهذا مقتبس من الآية الآتية (متفق عليه) : قال ميرك: ورواه الترمذي والنسائي...إلخ

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی

Print Full Screen Views: 53 Sep 06, 2024

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Interpretation and research of Ahadees

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.