resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: ہر صدی کے شروع میں اللہ تعالی کی طرف سے ایک مجدد بھیجا جاتا ہے۔۔۔الخ اس حدیث کی تحقیق اور کسی کے مجدد ہونے کا کیسے علم ہوتا ہے؟ (2126-No)

سوال: حضرت یہ بتائے کہ ہر صدی میں ایک مجدد آتا ہے، یہ کس حدیث میں ہے؟ یہ کیسے پتہ چلتا ہے کہ کوئی شخص مجدد ہے اور پچھلی صدی میں کون سی شخصیت مجدد گزری ہے؟

جواب: سوال میں دریافت کردہ روایت کو امام ابو داؤد نے اپنی "سنن"، امام طبرانی نے "معجم الاوسط" میں نقل کیا ہے، روایت کی سند میں راویوں کے قابلِ اعتبار ہونے کی وجہ سےروایت کی سند "صحیح " ہے، نیز مختلف کلمات سے روایت کا مضمون وارد ہونے پر مزید تقویت ملتی ہے، چنانچہ روایت کو آگے نقل کرنا درست ہے۔ ذیل میں روایت کا ترجمہ درجِ ذیل ہے:
حضرت ابوہریرة رضی اللہ عنہ سےروایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالی ہر سوسال کے بعد ایسے شخص کو بھیجتے ہیں، جو دین میں پیدا ہونے والی خرابیوں کو دور کرتا ہے۔(یعنی امت میں پھیلی ہوئی بدعات ورسومات کو ختم کرتا ہے، اور اسلام کے روشن چہرے پر بدنما داغ دھبوں کی صفائی کا ذمہ اٹھاتا ہے)
(سنن أبي داود،لسلیمان بن أشعث السجستاني، (کتاب الملاحم، باب ما یذکر في قرن المائة، 109/4، المحقق: محمد محيي الدين عبد الحميد، الناشر: المكتبة العصرية، صيدا – بيروت)
روایت کی اسنادی حیثیت:
مذکورہ روایت سےناقدین حدیث میں نامور شخصیت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے استدلال کیا ہے،(جس سے روایت کا قابلِ حجت ہونا معلوم ہوتا ہے)، اس بات کا تذکرہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اپنی کتاب"توالي التأسيس لمعالي محمد بن إدریس "(ص:49، ط:دار الکتب العلمیة) میں کیا ہے، نیز ملاعلی قاری رحمہ اللہ نے بھی روایت کی سند میں موجود راویوں کو معتبر مانتے ہوئے "صحیح " قرار دیا ہے۔ البتہ امام ابوداؤد رحمہ اللہ نے روایت کو معضل( جس سند سے دو راوی حذف ہوں) قرار دیا ہے۔ لہذا دونوں طرح سے روایت منقول ہے۔
مجدد ِ دین ہونے کی پہچان :
حدیث شریف میں اس حوالہ سے "من یجدد " کا کلمہ وارد ہے، جس کے عموم کو مدنظر رکھتے ہوئے اس سے مراد وہ فرد یا ایک ایسی جماعت ہے جو علوم دینیہ میں مہارت کی وجہ سے اہل افراط و تفریط کی تحریفات، اہل ہویٰ کی تراشی ہوئی بدعات اور ناحق مدعیوں کی تاویلات سے دین کو محفوظ رکھیں گے، اور اس کو اس کی بالکل اصلی شکل میں (جیسا کہ وہ ابتداء میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ہم تک پہنچا تھا )امت کے سامنے پیش کرتے رہیں گے، اور اس میں نئی روح پھونکتے رہیں گے، اسی کا م کا اصطلاحی عنوان "تجدیدِ دین" ہے اور اللہ تعا لی اپنے جن بندوں کو اس خدمت کا موقعہ دیں، وہ "مجددینِ دین " کہلاتے ہیں(عون المعبود، للعظیم آبادي،باب ما یذکر في قرن المائة، 264/11، الناشر: دار الكتب العلمية – بيروت)
اتنی بات ضرور ہے کہ کسی شخص یا جماعت کے مجدد ہونے کا صحیح و حتمی علم خدا تعالی ہی کو ہے، چنانچہ اکابر وعلماءِ وقت، اتقیاء وصلحاء کی جماعت بھی محض اپنے ظن وتخمین (اندازے) کے مطابق کسی فرد یا جماعت کی دینی خدمات اور اس کی کارکردگی سے معاشرے پر اثرات کو دیکھتے ہوئے "مجدد " کا مصداق ٹھہراتے ہیں، سو کسی شخص کا علی التعیین و حتمی طور پر مجدد ہونا معلوم نہیں ہوسکتا۔
گزشتہ صدی میں " مجدد "شخصیت:
ہماری معلومات کے مطابق بہت سے بزرگان دین نے گذشتہ صدی کے معروف بزرگ حضرت حکیم الامت مولانا محمد اشرف علی تھانوی نور اللہ مرقدہ کو ان کی ہمہ جہت دینی خدمات (جو کہ دین کے تمام شعبوں سے متعلق تھیں) کے پیش نظر "مجدد" کا درجہ دیا ہے۔ اسی وجہ سے حضرت تھانویؒ " حکیم الامت و مجدد الملت" کے لقب سے مشہور ہوئے۔ تاہم دین کے کسی ایک شعبے میں کسی شخصیت کے کارہائے نمایاں کو سامنے رکھتے ہوئے بہت سے بزرگوں نے کچھ نام اور بھی تجویز کیے ہیں، مثلاً: دین کی دعوت و تبلیغ اور مسلمانوں میں دینی بیداری اور ایمانی کیفیات کے حصول کے لیے کی جانے والی خدمات کے پیش نظر حضرت مولانا محمد الیاس کاندھلوی نور اللہ مرقدہ کو" مجدد "کہا گیا ہے۔ اسی طرح حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی نوراللہ مرقدہ کو بھی حدیث شریف کے لیے ان کی بیش قیمت خدمات کی وجہ سے "مجدد "کا لقب دیا گیا ہے۔ اس سے معلوم چلتا ہے کہ اس فرد یا جماعت کا جماعت کا تمام خیر کی صفات کا جامع ہونا ضروری نہیں ہے۔
اس موضوع پر مزید مطالعہ کے لئے امام سیوطی رحمہ اللہ کی کتاب" تحفة المھتدین بأخبار المجددین" قابلِ مطالعہ ہے، چنانچہ موصوف رحمہ اللہ نے بھی اپنے ظن وتخمین کی بناء پر مجددین کی ایک فہرست مرتب کی ہے، تاہم اس کو بھی حتمی قرار نہیں دیا جاسکتا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

سنن أبي داود: (کتاب الملاحم، باب ما یذکر في قرن المائة، 109/4، ط: المكتبة العصرية، صيدا، بيروت)
عن أبي هريرة-رضي الله عنه-، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «إن الله يبعث لهذه الأمة على رأس كل مائة سنة من يجدد لها دينها».
کذا أخرجه الطبراني في "معجمه الأوسط"، (المتوفى: 360ه)، (کتاب المیم، من اسمه: محمد، 323/6، المحقق: طارق بن عوض الله بن محمد , عبد المحسن بن إبراهيم الحسيني، الناشر: دار الحرمين – القاهرة)

فتح الباري شرح صحيح البخاري، لابن حجر العسقلاني، (قوله باب لا تزال طائفة من أمتي ظاهرين على الحق، 295/13، ط: دار المعرفة بيروت)
حديث "إن الله يبعث لهذه الأمة على رأس كل مائة سنة، من يجدد لها دينها": أنه لا يلزم أن يكون في رأس كل مائة سنة واحد فقط، بل يكون الأمر فيه -كما ذكر- في الطائفة، وهو متجه؛ فإن اجتماع الصفات المحتاج إلى تجديدها لا ينحصر في نوع من أنواع الخير، ولا يلزم أن جميع خصال الخير كلها في شخص واحد، إلا أن يدعى ذلك في عمر بن عبد العزيز-رحمه الله- ؛ فإنه كان القائم بالأمر على رأس المائة الأولى، باتصافه بجميع صفات الخير وتقدمه فيها۔ ومن ثم أطلق أحمد-رحمه الله- أنهم كانوا يحملون الحديث عليه، وأما من جاء بعده: فالشافعي، وإن كان متصفا بالصفات الجميلة إلا أنه لم يكن القائم بأمر الجهاد والحكم بالعدل۔ فعلى هذا كل من كان متصفا بشيء من ذلك عند رأس المائة هو المراد، سواء تعدد أم لا"۔

مرقاة المفاتیح: (کتاب العلم، 321/1، ط: دار الفكر، بيروت)
قوله ﷺ :"من يجدد" : مفعول يبعث (لها)، أي: لهذه الأمة (دينها) أي: يبين السنة من البدعة ويكثر العلم، ويعز أهله ويقمع البدعة ويكسر أهلها. قال صاحب جامع الأصول: وقد تكلم العلماء في تأويله، وكل واحد أشار إلى العالم الذي هو في مذهبه، وحمل الحديث عليه، والأولى الحمل على العموم؛ فإن لفظة " من " تقع على الواحد والجمع، ولا يختص أيضا بالفقهاء؛ فإن انتفاع الأمة بهم، وإن كان كثيرا فانتفاعهم بأولي الأمر، وأصحاب الحديث، والقراء، والوعاظ، والزهاد أيضا كثير؛ إذ حفظ الدين، وقوانين السياسة، وبث العدل وظيفة أولي الأمر۔ وكذا القراء وأصحاب الحديث ينفعون بضبط التنزيل والأحاديث التي هي أصول الشرع وأدلته، والوعاظ ينفعون بالوعظ والحثّ على لزوم التقوى، لكن المبعوث بشرط أن يكون مشارا إليه في كل فن من هذه الفنون. نقله السيد۔۔۔۔۔
والأظهر عندي -والله أعلم-: أن المراد بمن يجدد ليس شخصا واحدا، بل المراد به جماعة يجدد كل أحد في بلد في فن أو فنون، من العلوم الشرعية ما تيسر له، من الأمور التقريرية أو التحريرية، ويكون سببا لبقائه وعدم اندراسه وانقضائه إلى أن يأتي أمر الله، ولا شك أن هذا التجديد أمر إضافي؛ لأن العلم كل سنة في التنزل، كما أن الجهل كل عام في الترقي، وإنما يحصل ترقي علماء زماننا بسبب تنزل العلم في أواننا، وإلا فلا مناسبة بين المتقدمين والمتأخرين علما وعملا وحلما وفضلا وتحقيقا وتدقيقا؛ لما يقتضي البعد عن زمنه -عليه الصلاة والسلام-۔

فتاوی رشیدیه: (کتاب التفسیر و الحدیث ص: 110، ط: عالمی مجلس تحفظ اسلام کراتشی)
"راس سر کو کہتے ہیں لہذا مجدد شروع صدی میں ہووے گا مگر جو شروع صدی ہے وہ آخر پہلی صدی کا بھی ہے۔ بایں اعتبار اس کو کوئی آخر کہہ دیووے تو ہوسکتا ہے ورنہ جس صدی میں ہووے گا اس کی ابتداء میں ہووے گا تاکہ آخر تک تجدید کا اثر باقی رہے ۔اور علامت اس کی یہی ہے کہ اس کی تقریر وتحریر ، سعی وکوشش سے بدعات رفع ہوویں،سنت کا شیوع اور مردہ سنن کا احیاء ہووے۔ (باقی)احمد یا محمد ہونا اس کے نام میں ضرورنہیں، نہ کسی حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے اور ان کا علی التعیین جاننا محقق نہیں ہوا، اپنے ظن و تخمین سے بعض علماء نے جس کو عالم محقق دیکھامجدد اس کو ٹہرالیا، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تمامی صدی اول پر عمر بن عبد العزیر رضی اللہ عنہ کو کہا۔ علی ہذا مگر کوئی محقق قول نہیں ،اور جلال الدین سیوطی نے کچھ اس میں لکھا ہے بندہ کے نزدیک وہ قول اسلم ہے، جس نے یہ کہا کہ مجدد صدی کا ایک عالم ہونا ضروری نہیں ہر وقت میں دو چار دس ، بیس ، پچاس ہوگا۔ مجموعہ ہو یا ایک ہو لہذا بعد ہر صدسال کے جماعت متفرقہ عالم میں ہوتی ہے اور سب کی سعی اصلاح دین میں ہوتی ہے، ان کو بقدر اپنے علم و رتبہ کے حصہ تجدید کا ملتا ہے ،-واللہ تعالی اعلم -مگر کسی کو مقرر معین نہیں کہہ سکتے۔"

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

sadi ke / kay shoro / ibteda / start me / main Allah Taala ki taraf se / say aik mujaddid bheja jata he / hay. is hadis / hadees ki tehqeeq / tahqiq or kisi mujaddid hone / honay ka kese / kesay elm hota he / hay?, Confirmation of hadith about "At the beginning of every century a new mujaddid is sent by Allah Almighty". How do we know about someone that he is mujaddid?

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Interpretation and research of Ahadees