سوال:
مفتی صاحب! سنا ہے کہ پہلے قرآن شریف اس طرح کتابی شکل میں نہیں تھا، بلکہ پتوں، لکڑیوں اور پتھروں وغیرہ پر لکھا ہوا تھا اور وہ بھی مکمل قرآن مجید کسی کے پاس جمع نہیں تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد قرآن مجید کو کتابی صورت میں جمع کیا گیا ہے۔ مفتی صاحب اگر یہ بات درست ہے تو آپ اس بات کی وضاحت فرمادیں کہ قرآن کریم کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کس صدی میں جمع کیا گیا ہے اور اس کے جمع کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
جواب: واضح رہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دور میں باقاعدہ کتابت وحی کا اہتمام فرمایا تھا اور اس کے لیے کچھ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین مقرر فرمائے تھے، لہذا جب بھی وحی نازل ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاتبینِ وحی میں سے کسی کو بلا کر نازل شدہ آیات تحریر کرواتے اور لکھنے کے بعد اس کی املاء چیک کرتے کہ کہیں لکھنے میں کوئی غلطی تو نہیں ہوگئی ہے، اس ترتیب کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پورا قرآن مجید تحریر کروایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تحریر کروائے ہوئے نسخہ سے دیگر صحابہ کرام نے بھی اپنے لیے کاپیاں تیار کیں، البتہ دورِ نبوی میں قرآن مجید یکجا کتابی شکل میں موجود نہیں تھا، بلکہ چمڑے، پتھر اور ہڈی وغیرہ پر مختلف سورتیں تحریر تھیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس دنیا سے تشریف لے جانے کے ایک سال بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور میں مسیلمہ کذاب کے خلاف ایک جنگ لڑی گئی، اس جنگ میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد نے جامِ شہادت نوش کیا، ان شہداء میں حفاظ صحابہ کی بھی ایک بڑی تعداد تھی، اس جنگ کے بعد حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دل میں یہ خدشہ پیدا ہوا کہ اگر اسی طرح حفاظ صحابہ شہید ہوتے گئے تو کہیں قرآن مجید ضائع نہ ہو جائے، لہذا آپ نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو اس کے لیے تیار کیا کہ آپ باقاعدہ سرکاری سطح پر قرآن مجید کی جمع اور کتابی حفاظت کا اہتمام فرمائیں، اس طرح دور صدیقی میں حضرت ابوبکر کے حکم پر حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے یہ عظیم خدمت انجام دی اور قرآن مجید کے منتشر حصوں کو جمع کرکے ایک مکمل نسخے کی شکل میں جمع کردیا، قرآن مجید کا یہ نسخہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس تھا، آپ کی وفات کے بعد یہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے پاس رہا، اور ان کی شہادت کے بعد یہ نسخہ ام المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس محفوظ رہا۔
دور عثمانی میں جب اسلام عرب سے نکل کر عجم (غیر عرب) میں پہنچا تو قلت علم کی وجہ سے وہ قراءتوں کے اختلاف کو نہ سمجھ پاتے اور مختلف صحابہ کرام کے عجمی شاگر ایک دوسرے کی قرائت کو غلط کہتے، آرمینا اور آذربائجان کے جہاد میں حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ نے خود اس کا مشاہدہ کیا، لہذا جہاد سے واپسی پر انہوں نے امیر المومنین حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو مسئلہ کی نزاکت کے بارے میں بتایا اور انہیں اس مسئلہ کا مستقبل حل تلاش کرنے کا مشورہ دیا، حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے کبار صحابہ کرام سے مشورہ کے بعد حضرت زید بن ثابت کی سربراہی میں ایک کمیٹی بنائی اور حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے دور صدیقی میں جمع شدہ نسخہ منگوا کر اس پر دوبارہ کام کرنے کی ذمہ داری دی، ان حضرات نے قرآن مجید کے اس نسخے کو از سرنو مرتب کیا اور رسم الخط پر محنت کرکے اس میں متواتر قراءتوں کو سمو دیا، جب یہ مصحف تیار ہو گیا تو اس کے سات نسخے تیار کروائے گئے، اور بصرہ، کوفہ، شام، بحرین، یمن، مکہ اور مدینہ میں ایک ایک نسخہ محفوظ کردیا گیا، اس طرح صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اجماع سے تیار شدہ ایک اتفاقی نسخہ پوری دنیا میں عام ہوگیا۔
(مزید تفصیل کے لیے حضرت شیخ الاسلام مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہ العالی کی کتاب "علوم القرآن" کے باب پنجم کا مطالعہ کیجئے)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
صحیح البخاری: (رقم الحدیث:4986، ط: دار طوق النجاۃ)
ان زيد بن ثابت رضي الله عنه، قال: ارسل إلي ابو بكر مقتل اهل اليمامة، فإذا عمر بن الخطاب عنده، قال ابو بكر رضي الله عنه: إن عمر اتاني، فقال:" إن القتل قد استحر يوم اليمامة بقراء القرآن، وإني اخشى ان يستحر القتل بالقراء بالمواطن فيذهب كثير من القرآن، وإني ارى ان تامر بجمع القرآن. قلت لعمر: كيف تفعل شيئا لم يفعله رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال عمر: هذا والله خير، فلم يزل عمر يراجعني حتى شرح الله صدري لذلك ورايت في ذلك الذي راى عمر"، قال زيد: قال ابو بكر: إنك رجل شاب عاقل لا نتهمك وقد كنت تكتب الوحي لرسول الله صلى الله عليه وسلم فتتبع القرآن فاجمعه، فوالله لو كلفوني نقل جبل من الجبال ما كان اثقل علي مما امرني به من جمع القرآن، قلت: كيف تفعلون شيئا لم يفعله رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال: هو والله خير، فلم يزل ابو بكر يراجعني حتى شرح الله صدري للذي شرح له صدر ابي بكر وعمر رضي الله عنهما، فتتبعت القرآن اجمعه من العسب واللخاف وصدور الرجال حتى وجدت آخر سورة التوبة مع ابي خزيمة الانصاري، لم اجدها مع احد غيره لقد جاءكم رسول من انفسكم عزيز عليه ما عنتم سورة التوبة آية 128 حتى خاتمة براءة فكانت الصحف عند ابي بكر حتى توفاه الله، ثم عند عمر حياته، ثم عند حفصة بنت عمر رضي الله عنه.
سنن ابی داؤد: (رقم الحدیث:786، ط: دارالرسالة العالمیة)
سمعت ابن عباس، قال: قلت لعثمان بن عفان ما حملكم ان عمدتم إلى براءة وهي من المئين وإلى الانفال وهي من المثاني، فجعلتموهما في السبع الطوال ولم تكتبوا بينهما سطر بسم الله الرحمن الرحيم؟ قال عثمان:" كان النبي صلى الله عليه وسلم مما تنزل عليه الآيات فيدعو بعض من كان يكتب له، ويقول له: ضع هذه الآية في السورة التي يذكر فيها كذا وكذا، وتنزل عليه الآية والآيتان، فيقول مثل ذلك، وكانت الانفال من اول ما انزل عليه بالمدينة، وكانت براءة من آخر ما نزل من القرآن، وكانت قصتها شبيهة بقصتها فظننت انها منها، فمن هناك وضعتها في السبع الطوال ولم اكتب بينهما سطر بسم الله الرحمن الرحيم۔
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی