عنوان: فجر اور ظہر کی چار سنتوں کے علاوہ بقیہ سنتوں کی قضاء کا حکم (21278-No)

سوال: مفتی صاحب! سنا ہے کہ فجر کی سنتیں فرضوں کے ساتھ نکل جائیں تو زوال سے پہلے قضا پڑھنے کی صورت میں سنتوں کی بھی قضا کرلینی چاہیے، اس ضمن میں میرا سوال یہ ہے کہ فجر کی سنتوں کی کسی نہ کسی صورت میں قضا کا حکم ہے تو بقیہ سنتوں کی قضا کا حکم کیوں نہیں ہے؟

جواب: واضح رہے کہ سنن اور نوافل میں اصل یہ ہے کہ ان کی قضاء نہیں ہوتی، البتہ اگر کسی خاص سنت مؤکدہ کے بارے میں قضاء کی حدیث وارد ہوئی ہو تو پھر علماء کرام حدیث کی وجہ سے خاص ان سنتوں کی قضاء کا فتویٰ دیتے ہیں، جیسا کہ درج ذیل احادیث مبارکہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے سنت مؤکدہ کی قضاء ثابت ہے:
1) ترمذی شریف کی ایک حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس کسی کی فجر کی سنتیں قضاء ہو جائیں تو وہ انہیں سورج نکلنے کے بعد پڑھ لے" (ترمذی، حدیث نمبر: 423) اسی طرح واقعہ لیلۃ التعریس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب نے سورج بلند ہونے کے بعد فجر کی سنتیں اور فرض دونوں کی قضاء فرمائی تھی (صحیح مسلم، رقم الحدیث: 681) ان احادیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اگر کسی کی فجر کی نماز یا صرف فجر کی سنتیں قضاء ہو جائیں تو اشراق کے بعد سے لیکر زوال سے پہلے تک سنتوں کی بھی قضاء کرسکتا ہے۔
2) اسی طرح حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ایک حدیث میں فرماتی ہیں کہ "اگر نبی کریم ﷺ کبھی ظہر کی پہلے والی چار رکعتیں نہ پڑھ پاتے تو آپ انہیں ظہر کے بعد پڑھ لیتے" (ترمذی، حدیث نمبر: 426) اس حدیث شریف سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اگر کسی شخص کی ظہر کی پہلی والی سنتیں رہ جائیں تو اسے چاہیے کہ بعد والی سنتیں پڑھنے کے بعد اُن کی قضاء کرلے۔
فجر اور ظہر کی سنتوں کے علاوہ دیگر سنن مؤکدہ کی قضاء چونکہ کسی حدیث مبارکہ سے ثابت نہیں ہے، اس لیے ان کا حکم اپنی اصل پر ہے، یعنی ان کی قضاء نہیں کی جائے گی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

الصحیح لمسلم : (رقم الحدیث: 681، ط: دار احیاء تراث العربی)
عَنْ أَبِي قَتَادَةَ، قَالَ: خَطَبَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: «إِنَّكُمْ تَسِيرُونَ عَشِيَّتَكُمْ وَلَيْلَتَكُمْ، وَتَأْتُونَ الْمَاءَ إِنْ شَاءَ اللهُ غَدًا»، فَانْطَلَقَ النَّاسُ لَا يَلْوِي أَحَدٌ عَلَى أَحَدٍ، قَالَ أَبُو قَتَادَةَ: فَبَيْنَمَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسِيرُ حَتَّى ابْهَارَّ اللَّيْلُ، وَأَنَا إِلَى جَنْبِهِ، قَالَ: فَنَعَسَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَمَالَ عَنْ رَاحِلَتِهِ، فَأَتَيْتُهُ فَدَعَمْتُهُ مِنْ غَيْرِ أَنْ أُوقِظَهُ حَتَّى اعْتَدَلَ عَلَى رَاحِلَتِهِ، قَالَ: ثُمَّ سَارَ حَتَّى تَهَوَّرَ اللَّيْلُ، مَالَ عَنْ رَاحِلَتِهِ، قَالَ: فَدَعَمْتُهُ مِنْ غَيْرِ أَنْ أُوقِظَهُ حَتَّى اعْتَدَلَ عَلَى رَاحِلَتِهِ، قَالَ: ثُمَّ سَارَ حَتَّى إِذَا كَانَ مِنْ آخِرِ السَّحَرِ، مَالَ مَيْلَةً هِيَ أَشَدُّ مِنَ الْمَيْلَتَيْنِ الْأُولَيَيْنِ، حَتَّى كَادَ يَنْجَفِلُ، فَأَتَيْتُهُ فَدَعَمْتُهُ، فَرَفَعَ رَأْسَهُ، فَقَالَ: «مَنْ هَذَا؟» قُلْتُ: أَبُو قَتَادَةَ، قَالَ: «مَتَى كَانَ هَذَا مَسِيرَكَ مِنِّي؟» قُلْتُ: مَا زَالَ هَذَا مَسِيرِي مُنْذُ اللَّيْلَةِ، قَالَ: «حَفِظَكَ اللهُ بِمَا حَفِظْتَ بِهِ نَبِيَّهُ»، ثُمَّ قَالَ: «هَلْ تَرَانَا نَخْفَى عَلَى النَّاسِ؟»، ثُمَّ قَالَ: «هَلْ تَرَى مِنْ أَحَدٍ؟» قُلْتُ: هَذَا رَاكِبٌ، ثُمَّ قُلْتُ: هَذَا رَاكِبٌ آخَرُ، حَتَّى اجْتَمَعْنَا فَكُنَّا سَبْعَةَ رَكْبٍ، قَالَ: فَمَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الطَّرِيقِ، فَوَضَعَ رَأْسَهُ، ثُمَّ قَالَ: «احْفَظُوا عَلَيْنَا صَلَاتَنَا»، فَكَانَ أَوَّلَ مَنِ اسْتَيْقَظَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالشَّمْسُ فِي ظَهْرِهِ، قَالَ: فَقُمْنَا فَزِعِينَ، ثُمَّ قَالَ: «ارْكَبُوا»، فَرَكِبْنَا فَسِرْنَا حَتَّى إِذَا ارْتَفَعَتِ الشَّمْسُ نَزَلَ، ثُمَّ دَعَا بِمِيضَأَةٍ كَانَتْ مَعِي فِيهَا شَيْءٌ مِنْ مَاءٍ، قَالَ: فَتَوَضَّأَ مِنْهَا وُضُوءًا دُونَ وُضُوءٍ، قَالَ: وَبَقِيَ فِيهَا شَيْءٌ مَنْ مَاءٍ، ثُمَّ قَالَ لِأَبِي قَتَادَةَ: «احْفَظْ عَلَيْنَا مِيضَأَتَكَ، فَسَيَكُونُ لَهَا نَبَأٌ»، ثُمَّ أَذَّنَ بِلَالٌ بِالصَّلَاةِ، فَصَلَّى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ صَلَّى الْغَدَاةَ، فَصَنَعَ كَمَا كَانَ يَصْنَعُ كُلَّ يَوْمٍ۔۔۔۔الخ۔

الجامع للترمذی: (رقم الحدیث: 423، ط: دارالغرب الاسلامی)
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ مَنْ لَمْ يُصَلِّ رَكْعَتَيِ الْفَجْرِ فَلْيُصَلِّهِمَا بَعْدَ مَا تَطْلُعُ الشَّمْسُ.

و فیه ایضاً: (رقم الحدیث: 426، ط: دارالغرب الاسلامی)
عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا لَمْ يُصَلِّ أَرْبَعًا قَبْلَ الظُّهْرِ صَلَّاهُنَّ بَعْدَهُ

الدر المختار: (66/2، ط: ایچ ایم سعید)
و قضاء الفرض و الواجب و السنة فرض وواجب وسنة) لف ونشر مرتب.

رد المحتار: (59/2، ط: ایچ ایم سعید)
قال في الإمداد: وفي فتاوى العتابي أنه المختار، وفي مبسوط شيخ الإسلام أنه الأصح لحديث عائشة: "أنه عليه الصلاة والسلام كان إذا فاتته الأربع قبل الظهر يصليهن بعد الركعتين"، وهو قول أبي حنيفة، وكذا في جامع قاضي خان اه والحديث قال الترمذي: حسن غريب، فتح.

وفیه ایضاً: (57/2، ط: ایچ ایم سعید)
(قوله: ولايقضيها إلا بطريق التبعية إلخ) أي لايقضي سنة الفجر إلا إذا فاتت مع الفجر فيقضيها تبعاً لقضائه لو قبل الزوال؛ وما إذا فاتت وحدها فلاتقضى قبل طلوع الشمس بالإجماع؛ لكراهة النفل بعد الصبح. وأما بعد طلوع الشمس فكذلك عندهما. وقال محمد: أحب إلي أن يقضيها إلى الزوال كما في الدرر. قيل: هذا قريب من الاتفاق؛ لأن قوله: "أحب إلي" دليل على أنه لو لم يفعل لا لوم عليه. وقالا: لايقضي، وإن قضى فلا بأس به، كذا في الخبازية. ومنهم من حقق الخلاف وقال: الخلاف في أنه لو قضى كان نفلاً مبتدأً أو سنةً، كذا في العناية يعني نفلاً عندهما، سنةً عنده كما ذكره في الكافي إسماعيل

واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی

Print Full Screen Views: 101 Sep 12, 2024

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Salath (Prayer)

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.