سوال:
مفتی صاحب! پہلے زمانہ میں تو کوئی تجوید وغیرہ نہیں تھی، جو جس طرح قرآن پاک پڑھ سکتا تھا وہ اسی طرح قرآن پاک پڑھتا تھا، لیکن اب مدرسوں میں تجوید کے ساتھ پڑھاتے ہیں۔ معلوم یہ کرنا ہے کہ تجوید کا مطلب کیا ہے اور کیا تجوید سے قرآن پاک پڑھنا ضروری ہے؟
جواب: لفظِ تجوید "جودۃ" سے ماخوذ ہے، جوّد يجوِّد تجويدًا سے باب تفعيل كا مصدر ہے، جس کا لغوی معنی ہے: تحسین و عمدگی، اور اصطلاحی معنی یہ ہے کہ قرآن شریف کو ایسے پڑھنا جیسے وہ حضور ﷺ پر نازل ہوا اور جس طرح آپ ﷺ نے صحابہ کرامؓ کو پڑھ کر سنایا اور جس انداز میں صحابہ کرامؓ کے واسطے سے نسل در نسل تواتر و تسلسل کے ساتھ پوری دنیا میں پڑھا جارہا ہے۔ اسی طریقے اور انداز سے ہی پڑھنا ضروری ہے۔
جب یہ بات واضح ہوگئی کہ تجوید تلاوت اور قراءت کی عمدگی اور تحسین کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کے طریقے اور انداز کا نام ہے تو اس سوال کا جواب بھی واضح ہوگیا کہ " پہلے زمانہ میں تو کوئی تجوید وغیرہ نہیں تھی، جو جس طرح قرآن پاک پڑھ سکتا تھا وہ اسی طرح قرآن پاک پڑھتا تھا۔۔"، اس لیے کہ انداز اور طریقہ ابتدا ہی سے چل رہا ہے، جو چیز بعد میں ایجاد ہوئی وہ اسی تحسین اور عمدگی کی اصطلاحات ہیں، تاکہ تمام لوگ (بطورِ خاص عجمی لوگ) ان اصولوں کو سیکھ کر اس کے مطابق قراءت کرسکیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الكريم: (المزمل، الآية: 4)
وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِيلًا o
التمهيد في علم التجويد: (ص: 47، ط: مكتبة المعارف، الرياض)
الباب الثاني: في معنى التجويد، وفيه فصول الفصل الأول في التجويد والتحقيق والترتيل، أما التجويد فهو مصدر من جود تجويدا إذا أتى بالقراءة مجودة الألفاظ، بريئة من الجور في النطق بها.
ومعناه انتهاء الغاية في إتقانه، وبلوغ النهاية في تحسينه، ولهذا يقال جود فلان في كذا إذا فعل ذلك جيداً، والاسم منه الجودة.
فالتجويد هو حلية التلاوة، وزينة القراءة، وهو إعطاء الحروف حقوقها، وترتيبها مراتبها، ورد الحرف إلى مخرجه وأصله، وإلحاقه بنظيره وشكله، وإشباع لفظه، وتلطيف النطق به، على حال صيغته وهيئته، من غير إسراف ولا تعسف، ولا إفراط ولا تكلف، الفصل الثاني في معنى قوله تعالى: ورتل القرآن ترتيلاً
سئل علي بن أبي طالب، رضي الله عنه، عن هذه الآية، فقال: الترتيل هو تجويد الحروف، ومعرفة الوقوف.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی