عنوان: نواقض وضو (وضو توڑنے والی چیزیں) (21306-No)

سوال: مفتی صاحب! وضو کو توڑنے والی چیزیں بتادیں۔

جواب: درج ذیل صورتوں میں سے کوئی صورت پائی جائے تو وضو ٹوٹ جاتا ہے۔
(1) سبیلین (پیشاب اور پاخانے کے مقام) میں سے کوئی چیز نکل آئے تو اس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے، جیسے: پیشاب، پاخانہ، ہوا، منی مذی، ودی، حیض و نفاس یا استحاضہ کا خون وغیرہ۔
(2) بدن سے خون یا پیپ نکلے اور وہ بدن کے اس حصہ کی طرف سے بہہ جائے جس کا دھونا غسل میں واجب ہوتا ہے۔
(3) منہ سے خون نکلے اور وہ تھوک پر غالب ہوجائے یا تھوک کے برابر ہو تو اس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے
(4) اگر قے ہوجائے تو اس کی مختلف صورتیں ہیں:
(الف) اس میں کھانا، پینا یا پت نکلے اور قے منہ بھر کر آئی ہو تو اس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔
(ب) اگر قے میں نرا بلغم ہو تو اس سے وضو نہیں ٹوٹتا۔ خواہ وہ بلغم کتنا ہی کیوں نہ ہو۔
(ج) اگر قے میں خون گرے اور وہ پتلا اور بہتا ہوا ہو تو وضو ٹوٹ جائے گا، خواہ وہ خون تھوڑا ہو یا زیادہ۔
(د) اگر جما ہوا خون ٹکڑے ٹکڑے ہو کر گرے اور وہ منہ بھر کر ہو تو وضو ٹوٹ جائیگا اور اگر منہ بھر کر نہ ہو بلکہ کم ہو تو وضو نہیں ٹوٹے گا۔
(5) لیٹے لیٹے آنکھ لگ گئی یا کسی ایسی چیز سے سہارا اور ٹیک لگا کر سوجانا جس کے ہٹانے سے آدمی گر سکتا ہو تو اس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔
(6) بے ہوش ہو جانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔
(7) پاگل ہو جانا۔
(8) نشہ آور چیز کھانے سے اس قدر نشہ آجانا کہ صحیح طریقے سے چلا نہیں جارہا بلکہ قدم ادھر ادھر ڈگمگاتا رہے تو بھی وضو ٹوٹ جاتا ہے۔
(9) رکوع سجدے والی نماز میں بالغ آدمی کا بیداری کی حالت میں قہقہہ لگانا۔
(ماخوذ: تفہیم الفقہ، ص: 37، ط: مکتبۃ النور)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

کنز الدقائق: (ص: 140، ط: دار البشائر الاسلامیة)
وينقضه خروج نجس منه، وقيء ملأ فاه ولو مرة أو علقا أو طعاما أو ماء.لا بلغما، أو دما غلب عليه البزاق. والسبب: يجمع متفرقه. ونوم مضطجع ومتورك. وإغماء وجنون وسكر. وقهقهة مصل بالغ. ومباشرة فاحشة.

واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 89 Sep 23, 2024
nawaqis e wazu wazu torne wali chezen

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Purity & Impurity

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.