سوال:
معزز مفتیان کرام صاحبان! میری والدہ مرحومہ کا انتقال 1 جون 2024 میں ہوا، ہم چھ بھائی اور چار بہنیں ہیں، بڑے بھائی کا انتقال 7 مارچ 2023 میں ہوا، ایک عرصہ قبل والدہ مرحومہ نے بڑے بھائی کو اپنا سونا (زیورات) دینے کا ارادہ کیا، مجھ سے پوچھا تو میں نے کہا آپ کو اختیار ہے، جسے چاہے دیے دیں۔ بڑے بھائی مرحوم کو نانا نانی نے 2 ماہ کی عمر میں گود لیا، اُن کے انتقال کے بعد ماموں نے کفالت کی اورشادی کے چند ماہ بعد انہیں نکال دیا۔ بھائی مرحوم والد صاحب مرحوم کے پاس آگئے، بھابی اور بھائی سے والد صاحب نے کہا تھا کہ دوسرے نمبر والے بھائی کی شادی ہوگی تو تمھیں بھی ویسے سونے کے زیورات دیئے جائیں گے۔ والد مرحوم کا انتقال 1985 میں ہو گیا، سب بھائیوں بہنوں کی شادیاں ہو گئیں، مگر بڑے بھائی مرحوم کو سونا نہیں دیا گیا، والد مرحوم کے انتقال کے بعد بھائی مرحوم فیملی کے ہمراہ بیرون ملک چلے گئے، والدہ مرحومہ نے جب ارادہ کیا بڑے بھائی کوسونے کے زیورات دینے کا تو دوسرے نمبر والے بھائی نے والدہ مرحومہ اور سب کے سامنے زیورات توڑ موڑ دیئے، مرحوم بھائی نے والدہ کو منع کر دیا کہ زیورات آپ اپنے پاس رکھیں، مرحوم بھائی سال میں ایک دو بار چکر ضرور لگاتے تھے۔ والدہ مرحومہ نے دوسرے نمبر والے بھائی سے پوچھا کہ میرے زیورات کی زکوۃ نکال رہے ہو تو جواب ملا کہ یہ سب زکوة ہو گئے ہیں۔ والدہ مرحومہ نے چوتھے اور چھٹے نمبر والے بھائی سے کہا کہ تم اس زیورات کو کسی کام میں لگاؤ اور زکوۃ ادا کرو، انہوں نے منع کر دیا، کیونکہ وہ دونوں دوسرے نمبر والے بھائی کے ساتھ ہماری مشترکہ دوکان پر بیٹھتے تھے۔ (والد مرحوم کی میراث تا حال تقسیم
نہیں ہوئی) والدہ مرحومہ مجبورا بہن کے گھر جب منتقل ہوئیں (3 بچے بوڑھی ماں کو نہ کھانا دینے کو تیاراور نہ رات میں رکھنے کے لئے تیار جبک ایک بلڈنگ میں رہتے تھے) تو انہوں نے وہ سونا بڑے بھائی مرحوم کو دیا، تمام زیورات کی بھائی نے لکھ کر دو نقول بنائیں، ایک اپنے پاس اور ایک والدہ مرحومہ کو دیں، سونا اس وقت بڑے بھائی مرحوم کے بیٹے کے پاس ہے۔
بھائی مرحوم نے بیٹے کو واضح نہیں کیا کہ سونا اُن کا ہے یا والدہ مرحومہ کا؟ انتقال سے ایک ماہ قبل بھائی مرحوم سے (بیوہ) بھابھی نے کہا کہ آپ سونا والدہ کو دے دیں۔ اس پر انہوں نے کہا یہ میرا ہے، ماں نے مجھے دیا ہے۔ (بھائی نیک، شریف اور دیندار انسان تھے) مجھ سے بھائی مرحوم نے تذکرہ کیا تو میں نے کہا وہ آپ کو والدہ نے دے دیا، وہ آپ کا ہے انہوں نے کہا کہ یہ ہم سب کا ہے، زکوۃ ادا ہو رہی ہے اور اضافہ بھی ہو رہا ہے، دیگر بہنوں بھائیوں کا موقف ہے کہ والدہ مرحومہ نے زکوا کی ادائیگی کے لیے اور اضافہ ہو اس لیے دیا تھا، اب والدہ مرحومہ کی وراثت جاری ہو تو کس طرح جاری ہو؟ اس تمام صورت حال میں قرآن و سنت کے مطابق جواب عنایت فرمائیں۔
تنقیح: اس بات کی وضاحت فرمائیں کہ کیا اس بات کے گواہ موجود ہیں کہ والدہ نے اپنے زیورات بڑے بیٹے کو ملکیتاً دیے تھے؟
جواب تنقیح: والده نے سونا بڑے بیٹے کو بہن کے گھر پر دیا تھا، بہن نے بتایا کہ میں اپنے گھر کے کاموں میں مشغول تھی، گواہ کوئی نہیں ہے۔
جواب: واضح رہے کہ اگر آپ کی والدہ نے اپنے زیورات بڑے بیٹے کو ملکیتاً دیے تھے (جیسا کہ سوال سے بھی ظاہر ہے کہ والدہ نے امانت کی صراحت کے بغیر دیے ہیں، بیوی کے پوچھنے پر بھائی نے اپنی ملکیت بتایا ہے اور آپ (بھائی) نے بھی بھائی کی ملکیت بتایا ہے) تو بڑا بیٹا ان زیورات کا مالک ہوگا اور اس کے انتقال کے بعد اب یہ زیورات اس کے شرعی ورثاء میں شریعت کے میراث کے قانون کے مطابق تقسیم ہوں گے۔
چونکہ اس معاملہ میں بڑے بھائی کے ورثاء کے پاس شرعی گواہ نہیں ہیں، اور دیگر بہن بھائی ملکیتاً نہ دینے کا انکار کررہے ہیں، اس لیے دیگر بہن بھائیوں پر لازم ہے کہ اللہ کو حاضر و ناظر جانتے ہوئے قسم کھائیں کہ اللہ کی قسم یہ زیورات والدہ نے بھائی کو ملکیتاً نہیں دیے تھے، اگر بہن بھائی قسم کھالیں تو پھر یہ زیورات والدہ کی میراث شمار ہوں گے اور والدہ کے شرعی ورثاء میں شریعت کے میراث کے قانون کے مطابق تقسیم ہوں گے، اور اگر وہ قسم کھانے سے انکار کردیں تو بڑے بھائی کی ملکیت شمار ہوں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن الترمذي: (باب ما جاء في أن البينة على المدعي واليمين على المدعى عليه، رقم الحدیث: 1341، 19/3، ط: دار الغرب الإسلامي)
حدثنا علي بن حجر، قال: حدثنا علي بن مسهر، وغيره، عن محمد بن عبيد الله، عن عمرو بن شعيب، عن أبيه، عن جده، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال في خطبته: البينة على المدعي، واليمين على المدعى عليه.
درر الحكام شرح مجلة الاحكام: (المادة: 879، 487/2 ط: دار الجیل)
لو وهب أحد جميع امواله في حال صحته لأحدِ ورثتِه وسلّمه إياها وتوفّى بعد ذالك فليس لسائر الورثة المداخلة في الهبة المذکورۃ۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی