عنوان: اجتہاد کی تعریف، شرائط اور حکم (21328-No)

سوال: مفتی صاحب! اجتہاد کس کو کہتے ہیں اور اس کی شرائط اور حکم کیا ہے؟

جواب: واضح رہے کہ قرآن وسنت میں چھپے ہوئے مسائل تک رسائی حاصل کرنے کے لیے مجتہدین جو انتھک محنت اور جد و جہد کرتے ہیں، اس کو "اجتہاد" کہا جاتا ہے۔
اجتہاد کی شرائط:
اجتہاد ہر کس و ناکس کا کام نہیں ہے، بلکہ اجتہاد کا حامل وہ شخص ہوسکتا ہے جس میں درجہ ذیل شرائط پائی جاتی ہوں:
(1) عملی لحاظ سے شریعت پر مکمل یقین رکھتا ہو اور فاسقانہ کردار کا حامل نہ ہو۔
(2) فقہ کا عالم ہو۔
(3) قرآن اور ذخیرہ احادیث میں احکام و مسائل کے متعلق جتنی آیات اور احادیثِ مبارکہ ہیں، ان سب کا تفصیلی و تحقیقی علم اس کو حاصل ہو۔
(4) عربی لغت اور تاریخ کا ماہر ہو۔
(5) دلائلِ شرعیہ (قرآن، سنت، اجماع اور قیاس) سے احکام نکالنے کا ملکہ اس میں موجود ہو۔
اجتہاد کا حکم:
اجتہاد کا حکم یہ ہے کہ جن نئے مسائل کے بارے میں متقدمین سے کوئی صراحت منقول نہیں ہے، ایسے مسائل کا حل متقدمین کے مقرر کردہ قواعد کے مطابق نکالنا (جسے اجتہاد فی المسائل کہا جاتا ہے) اجتہاد کی صلاحیت رکھنے والوں کے لیے ہر دور میں جائز ہے۔
اسی طرح اجتہاد کی ایک قسم (جسے جزئی اجتہاد کہا جاتا ہے) یہ بھی ہر عہد میں جاری رہ سکتی ہے کہ ایک شخص دیگر مسائل میں اجتہاد کے درجہ کو نہ پہنچا ہو، لیکن زندگی کے کسی ایک شعبہ کے متعلق مسائل میں اس کو مہارت اور اجتہاد کا ملکہ حاصل ہو۔
البتہ مطلق اجتہاد (قرآن و سنت سے براہ راست اصول و قواعد کے استنباط کرنے) کے لیے جن شرائط اور اوصاف کا ہونا ضروری ہے، ان شرائط و اوصاف کے حامل لوگ چونکہ تقریباً چوتھی صدی کے بعد مفقود ہوگئے ہیں، نیز ائمہ اربعہ نے اجتہاد کی اس قسم کو اس قدر مکمل اور کھول کے رکھ دیا ہے کہ بعد کے کسی زمانے کے اندر اس میں مزید تحقیق وتلاش کی ضرورت باقی نہیں رہتی، لہذا بعد کے کسی دور میں اس نوع کا اجتہاد نہیں ہوسکتا ہے۔
نوٹ: اس موضوع پر مزید تفصیل کے لیے حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ کا رسالہ "الاقتصاد فی التقلید والاجتہاد" اور حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کی کتاب "تقلید کی شرعی حیثیت" کا مطالعہ مفید رہے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

المستصفى: (ص: 342، ط: دار الكتب العلمية)
الركن الأول: في نفس الاجتهاد وهو عبارة عن بذل المجهود واستفراغ الوسع في فعل من الأفعال، ولا يستعمل إلا فيما فيه كلفة وجهد، فيقال: اجتهد في حمل حجر الرحا، ولا يقال: اجتهد في حمل خردلة، لكن صار اللفظ في عرف العلماء مخصوصا ببذل المجتهد وسعه في طلب العلم بأحكام الشريعة. والاجتهاد التام أن يبذل الوسع في الطلب بحيث يحس من نفسه بالعجز عن مزيد طلب.

الموسوعة الفقھیة الکویتیة: (317/1، ط: دار السلاسل)
اشترط الأصوليون في المجتهد أن يكون مسلما صحيح الفهم عالما بمصادر الأحكام، من كتاب وسنة وإجماع وقياس، وبالناسخ منها والمنسوخ، عالما باللغة العربية نحوها وصرفها وبلاغتها، عالما بأصول الفقه.

الاقتصاد فی التقلید والاجتہاد: (ص: 52، ط: مکتبة البشرى)

اجتہاد اور تقلید کا آخری فیصلہ: (ص: 41، ط: ادارہ افادات اشرفیہ لکھنؤ)

اشرف الجواب: (ص: 312، ط: مکتبہ عمر فاروق)

آپ کے مسائل اور ان کا حل جدید: (420/1، ط: مکتبہ لدھیانوی)

فقہی مقالات: (211/5، 303/6، ط: میمن اسلامک پبلشرز)

واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 55 Sep 30, 2024

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Beliefs

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.