سوال:
اِنَّ الَّذِيۡنَ فَرَّقُوۡا دِيۡنَهُمۡ وَكَانُوۡا شِيَـعًا لَّسۡتَ مِنۡهُمۡ فِىۡ شَىۡءٍؕ اِنَّمَاۤ اَمۡرُهُمۡ اِلَى اللّٰهِ ثُمَّ يُنَبِّئُهُمۡ بِمَا كَانُوۡا يَفۡعَلُوۡنَ (سورة الانعام، الایة: 159)
ترجمہ: جن لوگوں نے اپنے دین میں (بہت سے) رستے نکالے اور کئی کئی فرقے ہو گئے ان سے تم کو کچھ کام نہیں ان کا کام خدا کے حوالے پھر جو کچھ وہ کرتے رہے ہیں وہ ان کو (سب) بتائے گا۔
مفتی صاحب! اس آیت کی روشنی میں ہم (دیوبندی، بریلوی، اہلحدیث) کہاں کھڑے ہیں؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں۔
جواب: اس سوال کے جواب کے لیے چند امور بطورِ تمہید ملاحظہ ہوں:
1) دین میں اختلاف دو طرح کا ہے، ایک اختلاف وہ ہے جو بنیادی عقائد اور ضروریاتِ دین میں ہے، جو بھی گروہ یا جماعت بنیادی عقائد اور ضروریاتِ دین میں سے کسی کا انکار کرتا ہے، وہ اسلام سے خارج ہے، لیکن جو جماعت بنیادی عقائد اور ضروریاتِ دین میں سے ہر ایک کی قائل ہو اور ان میں سے کسی کا انکار نہ کرے تو ایسی جماعت کافر نہیں ہے۔ ضروریاتِ دین سے مراد وہ دینی امور ہیں جن کا دین میں سے ہونا بداہتًا معلوم ہو۔
2) دوسری قسم کا اختلاف وہ ہے جو سنت و بدعت کا اختلاف ہے، ایسے اختلاف کی صورت میں جو لوگ قرآن و سنت پر عمل پیرا ہوں، وہ اہلسنت والجماعت کہلائیں گے، اور جو بدعت پر عمل پیرا ہوں وہ فرقہ مبتدعہ (بدعتی) کہلائیں گے۔
3) تیسری بات یہ واضح رہنی چاہیے کہ آیت کا ہرگز ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ کوئی بھی شخص یا جماعت اگر کسی خاص نام سے موسوم ہو تو وہ ضرور جہنمی ہے یا یہ کہ وہ باطل پر ہے۔ یہ سخت غلطی ہے جو اس زمانے میں بہت سارے لوگوں کی فکری گمراہی کا ذریعہ بنی ہے، اگر کوئی شخص یا جماعت قرآن و سنت پر مکمل طور پر عمل پیرا ہو، عقائد اور ضروریاتِ دین کو بھی مانتی ہو اور ہر قسم کی بدعات سے دور ہو تو ایسا شخص اور ایسی جماعتیں جتنی ہیں، وہ سب اہلسنت والجماعت میں داخل ہیں اور ان شاء اللہ نجات پانے والی ہیں، اگرچہ انہیں کسی خاص نام سے پکارا جاتا ہو، فرقوں سے متعلق مشہور حدیثِ مبارکہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"سنو، تم سے پہلے اہل کتاب بَہتّر فرقوں میں بٹ گئے، یہ امت تِہتَّر فرقوں میں تقسیم ہوگی، جن میں سے بَہتّر جہنم میں جائیں گے، اور ان میں سے صرف ایک جنت میں جائے گا"۔ (ابوداود، حدیث نمبر: 4597)
ایک اور روایت میں ہے کہ صحابہؓ نے عرض کیا: "وه جنت میں جانے والا گروہ کون ہوگا؟ تو فرمایا: جو میرے اور میرے صحابہؓ کے طریقے پر ہوگا۔"
اس سے معلوم ہوا کہ جنت میں جو جماعت جائے گی، بہرحال وہ بھی تِہتّر میں سے ایک جماعت یا فرقہ ہی ہوگی، لیکن وہ باطل فرقہ نہیں ہوگی، بلکہ حق پرست جماعت ہوگی، جو اپنے عقائد و اعمال میں رسول اللہ ﷺ اور صحابہؓ کے طریقے پر ہوگی۔
جہاں تک دیوبندی، بریلوی، اہلِ حدیث اور شیعہ وغیرہ کے متعلق سوال ہے کہ "یہ کہاں کھڑے ہیں؟" تو اوپر ذکر کردہ تین باتوں سے اس کا جواب بھی واضح ہوگیا کہ صرف انہیں ایک خاص نام سے موسوم ہونے کی وجہ سے جہنمی یا باطل کہنا صحیح نہیں ہے، بلکہ ان سے متعلق بھی اصولی بات وہی ہے جو اوپر مذکور ہوئی، یعنی یہ دیکھا جائے گا کہ قرآن و سنت کی پیروی پر کون سی جماعت ہے اور بدعت پر کون سی جماعت ہے؟
باقی "دیوبند" اور "بریلی" علاقوں کے نام ہیں، دیوبند وہ علاقہ ہے جس میں مدرسہ دارالعلوم دیوبند واقع ہے، اس مدرسہ یا اس کی شاخوں (جو پوری دنیا میں پھیلی ہوئی ہیں) سے جو بھی فارغ التحصیل ہو، اسے "دیوبندی" کہا جاتا ہے، جیسے جامعہ ازہر سے فارغ التحصیل ہونے والوں کو "ازہری" کہا جاتا ہے، اسی طرح اور بھی ادارے یا جماعتیں ہوتی ہیں، جن کے نام مختلف ہوتے ہیں، لیکن انہیں "فرقہ'' نہیں کہا جاتا۔
دوسری بات یہ ہے کہ چونکہ دیوبند کا قصبہ، اس میں واقع یہ مدرسہ اور اس سے وابستہ لوگ کئی عظیم ترین عالمی دینی تحریکوں کی بنیاد بھی بنے، جس میں سید الطائفہ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ، قاسم العلوم والخیرات حضرت مولانا قاسم نانوتویؒ اور قطب الاقطاب حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ وغیرہ حضرات کی جہادی تحریکیں، حضرت شیخ الہندؒ، شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنیؒ، شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانیؒ، مفتی محمد شفیع صاحبؒ کی کئی مختلف الجہات سیاسی تحریکیں، حضرت مولانا محمد الیاس صاحب کاندھلویؒ کی تبلیغی تحریک، جسے تبلیغی جماعت کہا جاتا ہے، حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ اور ان کے رفقاء کے عظیم ترین علمی، اصلاحی اور تجدیدی کارنامے، وغیرہ۔
اس اعتبار سے جو بھی شخص اس خاص فکر سے وابستہ ہو، جو ان تمام تحریکوں کی بنیاد ہے، یا کم از کم اس فکر کو مبنی بر حق سمجھتا ہو، نیز اختلافی مسائل میں علمائے دیوبند کی فکر اور ان کی تشریح و تفسیر کو درست سمجھتا ہو، اسے بھی "دیوبندی" کہا جاتا ہے۔ اس اعتبار سے "دیوبند" کی جماعت دراصل ایک "فرقہ" نہیں اور نہ ہی یہ جماعت فرقہ واریت کو پسند کرتی ہے، البتہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ"دیوبند" ایک مکتبِ فکر (School of thought) کا نام ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ کوئی اپنا نام کچھ بھی رکھ لے، اس نام کی بنیاد پر جنت یا جہنم کا فیصلہ نہیں ہوگا، بلکہ ہر شخص کے اپنے عقائد اور اعمال کی بنیاد پر اس کا فیصلہ ہوگا، جو جہنم میں جائے گا تو اس کی وجہ یہ نہیں ہوگی کہ کسی خاص جماعت کی طرف اپنی نسبت کرتا تھا، بلکہ وہ اپنے بُرے عقائد اور اپنی بداعمالیوں کی بنیاد پر جہنم میں جائے گا اور پھر ان میں سے جس کے دل میں ایمان ہوگا وہ اپنی بداعمالیوں کی سزا بھگت کر جنہم سے نکالاجائے گا اور جنت میں داخل ہوگا۔ لیکن اصل جنتی لوگ وہی ہوں گے جو حضور ﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کے راستے اور طریقے پر ہوں گے اور اس میں کسی طرح کی کمی زیادتی نہیں کرتے ہوں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن أبي داود: (رقم الحدیث: 4597، 7/6، ط: دار الرسالة العالمیة)
حدَّثنا أحمد بنُ حنبلٍ ومحمد بن يحى بن فارس، قالا: حدَّثنا أبو المُغيرة، حدَّثنا صفوانُ. وحدَّثنا عمرو بنُ عثمان، حدَّثنا بقيَّة، حذَثني صفوانُ، نحوه، قال: حدَّثني أزهرُ بن عبد الله الحَرازيُّ، عن أبي عامر الهوزنيِّ عن معاوية بن أبي سفيان، أنه قامَ فينا، فقال: ألا إن رسولَ الله - صلى الله عليه وسلم - قامَ فينا، فقال: "ألا إنَّ مَنْ قبلَكم من أهلِ الكتابِ افترقُوا على ثِنتَين وسبعينَ ملَّةً، وإن هذه الملةَ ستفترقُ على ثلاثٍ وسَبعينَ: ثنتانٍ وسبعونَ في النَّار، وواحدةٌ في الجنة، وهي الجماعة -زاد ابن يحيى وعمرو في حديثيهما:- وإنّه سيخرج في أمتي أقوام تَجَارَى بهم تلك الأهواءُ كما يَتَجَارَى الكَلَبُ لِصاحبه، وقال عمرو: "الكَلَب بصاحبه- لا يبقى منه عِرْقٌ ولا مَفصِلٌ إلا دخلَه".
سنن الترمذي: (رقم الحديث: 2641، ط: دار الغرب الاسلامي)
حدثنا محمود بن غيلان، قال: حدثنا أبو داود الحفري، عن سفيان الثوري، عن عبد الرحمن بن زياد الإفريقي، عن عبد الله بن يزيد ، عن عبد الله بن عمرو قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ليأتين على أمتي ما أتى على بني إسرائيل حذو» النعل بالنعل، حتى إن كان منهم من أتى أمه علانية لكان في أمتي من يصنع ذلك، وإن بني إسرائيل تفرقت على ثنتين وسبعين ملة، وتفترق أمتي على ثلاث وسبعين ملة، كلهم في النار إلا ملة واحدة. قالوا: ومن هي يا رسول الله؟ قال: ما أنا عليه وأصحابي.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی