عنوان: قرآن شریف کا ترجمہ پڑھنے سے تلاوت کی فضیلت حاصل ہونے کاحکم (21354-No)

سوال: مفتی صاحب! یہ بتا دیجیے کہ اگر کوئی شخص سورۃ الملک عربی کے بجائے صرف ترجمہ سے اپنی زبان میں پڑھتا ہے تو کیا اس کو وہ فضیلت حاصل ہوگی جس کے بارے میں حدیث نبوی کا مفہوم ہے کہ "جو ہر رات سورۃ الملک کی پڑھے گا تو وہ عذاب قبر سے محفوظ رہے گا"۔
اس لیے کہ وہ شخص یہ چاہتا ہے کہ اس کو یہ فضیلت بھی حاصل ہو جائے اور اس کو سمجھ بھی آئے جو وہ پڑھ رہا ہے۔

جواب: واضح رہے کہ قرآن شریف کی تلاوت کرنے کی اپنی فضیلت ہے، اور سمجھ کر ترجمہ اور تشریح پڑھنے کی الگ فضیلت ہے، محض ترجمہ پڑھنے سے تلاوت کی فضیلت حاصل نہیں ہوتی، جیسا کہ محض تلاوت کرنے سے سمجھ کر پڑھنے کی فضیلت حاصل نہیں ہوتی۔
لہٰذا پوچھی گئی صورت میں ذکر کردہ فضیلت چونکہ اصل اللہ کے کلام کی تلاوت سے متعلق ہے، اس کے ترجمہ اور مفہوم کو پڑھنے سے متعلق نہیں ہے، اس لیے محض اپنی زبان میں ترجمہ پڑھ لینا اگرچہ بذات خود ثواب کا کام ہے، لیکن صرف ترجمہ پڑھ لینے سے یہ مخصوص فضیلت حاصل نہیں ہو گی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

القرآن الكريم: (آل عمران، الآية: 164)
{ لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْ أَنْفُسِهِمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُبِينٍ o

سنن الترمذي: (رقم الحديث: 2890، ط: دار الغرب الإسلامي)
حدثنا ‌محمد بن عبد الملك بن أبي الشوارب ، قال: حدثنا ‌يحيى بن عمرو بن مالك النكري ، عن ‌أبيه ، عن ‌أبي الجوزاء ، عن ‌ابن عباس قال: «ضرب بعض أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم خباءه على قبر وهو لا يحسب أنه قبر، فإذا فيه إنسان يقرأ ‌سورة تبارك الذي بيده الملك حتى ختمها، فأتى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، إني ضربت خبائي على قبر وأنا لا أحسب أنه قبر، فإذا فيه إنسان يقرأ ‌سورة تبارك الملك حتى ختمها، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: هي المانعة، هي المنجية، تنجيه من عذاب ‌القبر». هذا حديث غريب من هذا الوجه. وفي الباب عن أبي هريرة.

رد المحتار: (485/1، ط: دار الفكر)
‌‌(فروع) قرأ بالفارسية أو التوراة أو الإنجيل، إن قصة تفسد، وإن ذكرا لا؛ وألحق به في البحر الشاذ، لكن في النهر: الأوجه أنه لا يفسد..
وفي رد المحتار تحته: فروع قرأ بالفارسية أو التوراة أو الإنجيل... (قوله وألحق به في البحر الشاذ) أي فجعله على هذا التفصيل توفيقا بين القول بالفساد به والقول بعدمه (قوله لكن في النهر إلخ) حيث قال: عندي بينهما فرق، وذلك أن الفارسي ليس قرآنا أصلا لانصرافه في عرف الشرع إلى العربي، فإذا قرأ قصة صار متكلما بكلام الناس.

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 105 Oct 07, 2024

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Business & Financial

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.