عنوان: اولاد اور والد کے درمیان کاروبار کی ایک صورت کا حکم (21361-No)

سوال: مفتی صاحب! میرا نام محمد یوسف ہے، میرے بیٹے کا نام محمد عرفان ہے، اس کو میں نے پرچون کی دکان کھول کر دی، میری بغیر اجازت اس نے دکان سے پیسے چرائے اور اسلحہ خریدا، پھر میرے اوپر سات فائر کیے لیکن اللہ نے مجھے بچا لیا اور کوئی گولی نہیں لگی اور وہ یہ دعوی کرتا ہے کہ اس دکان کا تنہا میں مالک ہوں، مزید یہ کہ اس نے دکان سے رقم بھی چوری کی جو اسلحہ خریدی ہوئی رقم کے علاوہ ہے۔ آپ سے سوال ہے کہ شریعت کی روشنی میں اس صوتحال کا کیا حل ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔
تنقیح: آپ نے دکان کھولتے وقت دکان عرفان کو ہدیہ کی تھی یا اجرت پر کھول کر دی تھی یا کچھ طے نہیں گیا تھا؟ عرفان اور اس کے بیوی بچے آپ کے زیر کفالت ہیں یا الگ رہتے ہیں؟
جواب تنقیح: دکان کھولتے وقت کچھ طے نہیں کیا تھا، دکان ہدیہ نہیں کی بلکہ میری ہی ملکیت ہے، عرفان اور اس کے بیوی بچے میرے زیر کفالت ہیں، ہم سب ساتھ ایک ہی گھر میں رہتے ہیں اور دکان پر چاروں بیٹے بیٹھتے ہیں۔

جواب: واضح رہے کہ قرآن وحدیث میں والدین کے ادب واحترام کی بہت تاکید آئی ہے۔قرآن حکیم میں ایک جگہ ارشاد ہے کہ " تم اپنے والدین کو اُف تک بھی نہ کہو"(سوره اسراء ، آیت نمبر:23) اسی طرح ایک جگہ فرمایا کہ "ہم نے انسان کو اپنے والدین سے اچھا برتاؤ کرنے کا حکم دیا ہے۔"(سوره احقاف،آیت بمبر:15)اس لیے بیٹے کو چاہیے کہ اس نے جو اپنے والد کو اذیت پہنچائی ہے اس پر وہ اللہ سے توبہ واستغفار کرے اور والد صاحب سے معافی مانگےاور والد صاحب کو بھی چاہیے کہ وسعت ظرفی کا معاملہ اختیار کریں اور اپنے بیٹے کو معاف کردیں۔
آپ نے جو صورت سوال میں پوچھی ہے اس کا حکم یہ ہے کہ چونکہ آپ نے بیٹے کو یہ دکان ہبہ(Gift) نہیں کی تھی اور نہ ہی بیٹے کو متعین اُجرت کے عوض رکھا تھا اور بیٹا آپ کے زیر کفالت بھی تھا،اس لیے سوال میں ذکر کردو صورت میں بیٹا باپ کا معین ومددگار سمجھا جائے گا اور اس کو باپ سے جبراکوئی چیز لینے کا کوئی حق نہیں ہے۔کاروبار اور اس کے منافع باپ کی ملکیت شمارہوں گے۔مزید یہ کہ عرفان نے جو پیسے چوری کیے ہیں، اس کا حکم یہ ہے کہ عرفان پر لازم ہے کہ وہ سارے پیسے والد صاحب کو لوٹادے،البتہ اگر والد صاحب خوشی سے معاف کردیں تو اس صورت میں وہ پیسے عرفان کے ذمہ سے ساقط ہو جائیں گے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

القرآن الکریم: (سورة الاحقاف، الایة: 15)
وَوَصَّيْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ إِحْسٰنا ... الخ

فتاوی هندیة: (کتاب الشرکة، 70/4، ط: رشیدیة)
أب وابن يكتسبان في صنعة واحدة ولم يكن لهما مال فالكسب كله للأب إذا كان الابن في عيال الأب لكونه معينا له

بدائع الصنائع: (کتاب الغصب، 35/10، ط: رشیدیة)
فالمغصوب لا يخلو إما أن يكون مما له مثل، وإما أن يكون مما لا مثل له، فإن كان مما له مثل كالمكيلات والموزونات والعدديات المتقاربة، فعلى الغاصب مثله.

شرح المجلة لرستم باز: (المادة: 1398، 581/2، ط: رشیدیة)

فتاوی دار العلوم دیوبند: (کتاب الشرکة والقسمة، 45/13، ط: حقانیة)

فتاوی عثمانیه: (کتاب الغصب، 317/9، ط: العصر اکیڈمی)

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 152 Oct 09, 2024
olad aulad aur walid ke darmiyan karobar ki ek surat ka hukum

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Employee & Employment

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.