سوال:
مفتی صاحب! میرا نماز کے اوقات سے متعلق ایک سوال ہے، یہ جو ہم فجر کی نماز صبح، ظہر کی نماز دوپہر، عصر کی نماز شام، مغرب کی نماز سورج غروب ہونے کے بعد اور عشاء کی نماز رات ہونے پر پڑھتے ہیں، کیا یہ نمازوں کے وقت کی تعیین قرآن و حدیث سے ثابت ہے؟ اور کیا یہ نمازوں کے نام (فجر، ظہر، عصر، مغرب اور عشاء) بھی قرآن و حدیث سے ثابت ہیں؟
جواب: واضح رہے کہ نمازوں کے اوقات اور ان کے نام قرآن اور حدیث سے ثابت ہے، چنانچہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: فَسُبۡحٰنَ اللّٰہِ حِیۡنَ تُمۡسُوۡنَ وَ حِیۡنَ تُصۡبِحُوۡنَ. وَلَہُ الۡحَمۡدُ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ عَشِیًّا وَّ حِیۡنَ تُظۡہِرُوۡنَ. (الروم: 18،17)
"اللہ کی تسبیح کرو اس وقت بھی جب تمہارے پاس شام آتی ہے، اور اس وقت بھی جب تم پر صبح طلوع ہوتی ہے۔ اور اسی کی حمد ہوتی ہے آسمانوں میں بھی اور زمین میں بھی، اور سورج ڈھلنے کے وقت بھی (اس کی تسبیح کرو) اور اس وقت بھی جب تم پر ظہر کا وقت آتا ہے۔"
اس آیت کی تفسیر میں مفتی اعظمِ پاکستان مفتی محمد شفیع عثمانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
"آیت مذکورہ کے الفاظ میں نماز یا صلوة کی تصریح نہیں، اس لئے ہر قسم کے ذکراللہ قولی اور عملی کو شامل ہے، جیسا کہ خلاصہ تفسیر میں بیان کیا گیا ہے اور ذکر اللہ کی تمام اقسام میں چونکہ نماز سب سے اعلی اور افضل ہے، اس لئے وہ اس میں بدرجہ اولی داخل ہے، اسی لئے علماء نے کہا ہے کہ اس آیت میں پانچوں نمازوں کا مع ان کے اوقات کے ذکر آ گیا ہے، جیسا کہ حضرت ابن عباس سے کسی نے دریافت کیا کہ کیا قرآن میں پانچ نمازوں کا ذکر صریح ہے؟ تو فرمایا ہاں! اور استدلال میں یہی آیت پیش کر کے فرمایا کہ "حِيْنَ تُمْسُوْنَ" میں نماز مغرب اور "حِيْنَ تُصْبِحُوْنَ" میں نماز فجر اور "عَشِـيًّا" میں نماز عصر اور "حِيْنَ تُظْهِرُوْنَ" میں نماز ظہر کا ذکر صریح موجود ہے۔ اب صرف ایک نماز عشاء رہی، اس کے ثبوت میں دوسری آیت کا جملہ ارشاد فرمایا "مِنْۢ بَعْدِ صَلٰوةِ الْعِشَاۗءِ"۔
اور حضرت حسن بصری نے فرمایا کہ "حِيْنَ تُمْسُوْنَ" میں نماز مغرب و عشاء دونوں داخل ہیں"۔ (معارف القرآن: 729/6، ط: مکتبہ معارف القرآن)
صحیح مسلم میں حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز کے اوقات کے بارے میں دریافت کیا تو آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا: ہمارے ساتھ دو دن رہ کر نماز پڑھ لو، چنانچہ جب زوال کا وقت ہوگیا تو حضرت بلال نے آپ علیہ الصلاۃ والسلام کے حکم سے اذان دی، اور اس کے بعد ظہر کی نماز کی اقامت کہی، پھر (عصر کا وقت ہونے پر) سورج ابھی بلند او سفید ہی تھا عصر کی اقامت کہی، غروب آفتاب کے وقت مغرب کی اقامت کہی، پھر حضرت بلال نے آپ علیہ الصلاۃ والسلام کے حکم سے شفق (غروب کے بعد آسمان پر پہلے سرخی اور اس کے بعد جو روشنی سی آتی ہے، اس روشنی اور سفیدی) کے غائب ہونے کے بعد عشاء کی اقامت کہی، پھر طلوع فجر کے وقت فجر کی اقامت کہی۔
دوسرے دن ظہر کے وقت میں تاخیر فرمائی، یہاں تک کہ نسبتاً موسم کے ٹھنڈا ہوجانے پر ظہر کی نماز ادا کی، اور عصر کی نماز کو پہلے دن کی بنسبت تاخیر سے ادا فرمایا، تاہم سورج ابھی بلند اور سفید ہی تھا، مغرب کی نماز ( میں بھی تاخیر کرتے ہوئے) شفق کے غائب ہونے سے ذرا پہلے پڑھی، اور عشاء کی نماز ایک تہائی رات گزر جانے کے بعد پڑھی، جب کہ فجر کی نماز صبح روشن ہونے کے بعد پڑھی، پھر آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا: جس نے نماز کے بارے میں سوال کیا تھا، وہ کہاں ہے؟ اس شخص نے کہا میں ہوں یا رسول اللہ! آپ نے فرمایا: ان اوقات کے درمیان تمہاری نمازوں کا وقت ہے۔ (صحیح مسلم، حدیث نمبر: 613)
مذکورہ بالا قرآنی آیات اور حدیثِ مبارکہ میں نمازوں کے اوقات کا ذکر موجود ہے، اور اسی طرح پنچ وقتہ نمازوں کے ناموں کا ذکر بھی مذکورہ آیات میں اشارتاً اور حدیثِ مبارکہ میں صراحت کے ساتھ آیا ہے، بلکہ قرآن مجید کے اندر سورہ نور کی آیت نمبر: 58 میں صراحت کے ساتھ فجر اور عشاء کی نماز کو فجر اور عشاء کا نام دے کر ذکر فرمایا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (النور، الآیة: 58)
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لِیَسۡتَاۡذِنۡکُمُ الَّذِیۡنَ مَلَکَتۡ اَیۡمَانُکُمۡ وَ الَّذِیۡنَ لَمۡ یَبۡلُغُوا الۡحُلُمَ مِنۡکُمۡ ثَلٰثَ مَرّٰتٍ ؕ مِنۡ قَبۡلِ صَلٰوۃِ الۡفَجۡرِ وَ حِیۡنَ تَضَعُوۡنَ ثِیَابَکُمۡ مِّنَ الظَّہِیۡرَۃِ وَ مِنۡۢ بَعۡدِ صَلٰوۃِ الۡعِشَآءِ ۟ؕ ثَلٰثُ عَوۡرٰتٍ لَّکُمۡ ؕ لَیۡسَ عَلَیۡکُمۡ وَ لَا عَلَیۡہِمۡ جُنَاحٌۢ بَعۡدَہُنَّ ؕ طَوّٰفُوۡنَ عَلَیۡکُمۡ بَعۡضُکُمۡ عَلٰی بَعۡضٍ ؕ کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمُ الۡاٰیٰتِ ؕ وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌ حَکِیۡم o
الصحیح لمسلم: (رقم الحدیث: 613، 428/1 دار إحياء التراث العربي)
عن سليمان بن بريدة، عن أبيه، عن النبي صلى الله عليه وسلم؛ أن رجلا سأله عن وقت الصلاة؟ فقال له: "صل معنا هذين" (يعني اليومين) فلما زالت الشمس أمر بلالا فأذن. ثم أمره فأقام الظهر. ثم أمره فأقام العصر. والشمس مرتفعة بيضاء نقية. ثم أمره فأقام المغرب حين غابت الشمس. ثم أمره فأقام العشاء حين غاب الشفق. ثم أمره فأقام الفجر حين طلع الفجر. فلما أن كان اليوم الثاني أمره فأبرد بالظهر. فأبرد بها. فأنعم أن يبرد بها. وصلى العصر والشمس مرتفعة. أخرها فوق الذي كان. وصلى المغرب قبل أن يغيب الشفق. وصلى العشاء بعد ما ذهب ثلث الليل. وصلى الفجر فأسفر بها. ثم قال:" أين السائل عن وقت الصلاة؟ " فقال الرجل: أنا. يا رسول الله! قال:"وقت صلاتكم بين ما رأيتم."
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی