سوال:
مجھے جب چھینک آتی ہے تو روکنے کے باوجود بھی آواز تیز ہوجاتی ہے، اکثر لوگ حدیث کا حوالہ دے کر کہتے ہیں کہ یہ خلاف سنت ہے۔ براہ کرم وضاحت فرمادیں کہ کیا اس سے مجھے خلافِ سنت کا گناہ ہورہا ہے، کیونکہ میں کوشش کے باوجود بھی مجبور ہوں۔
جواب: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کو جب چھینک آتی تھی تو اپنا ہاتھ یا اپنا کپڑا منہ پر رکھ لیتے اور آہستہ آواز سےچھینکتے۔ (سنن ابو داود، حدیث: 5029)
اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ سنت طریقہ یہی ہے کہ چھینکتے وقت اپنی آواز کو حتی الوسع پست رکھنے کی کوشش کی جائے، تاہم اگر روکنے کی کوشش کے باوجود بھی کسی شخص کی آواز فطری طور پر تیز ہو جائے تو اس میں حرج کی بات نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
شرح المصابيح لابن الملك: (201/5، ط: إدارة الثقافة الإسلامية)
3677- عن أبي هريرة - رضي الله عنه -: أن النبي - صلى الله عليه وسلم - كان إذا عطس غطى وجهه بيده، أو بثوبه، وغض بها صوته. صحيح.
" عن أبي هريرة - رضي الله عنه - أن النبي صلى الله عليه وسلم كان إذا عطس غطى"؛ أي: ستر "وجهه بيده أو بثوبه، كيلا يترشش من لعابه أو مخاطه إلى أحد.
"وغض بها"؛ أي: نقص بيده؛ يعني: بوضعها على فمه.
"صوته" كيلا يرتفع، قال الله تعالى:(واغضض من صوتك) (لقمان: 19). قيل: هذا نوع من الأدب بين يدي الجلساء؛ لأنه لا يأمن مما يكرهه الناس من فضلات الدماغ.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی