عنوان: ساس کا رات کو بہو کے کمرے میں سونے کا حکم(2154-No)

سوال: مفتی صاحب ! ایک عورت کے پانچ بیٹے ہیں، ہر بیٹا چھ دن اپنی ماں کو گھر میں رکھتا ہے،اس طرح سلسلہ چل رہا ہے، جن میں سے ایک بیٹا صرف اس کا ایک کمرہ ہے، اس کے باوجود وہ ان کو کمرہ میں رکھتا ہے، اب اس کے اور اس کی بیوی کے درمیان اس بات پر چھگڑا ہورہا ہے کہ وہ اپنی ساس کو رات کو اس کمرے میں نہیں سلا سکتی، اب اس کے شوہر کے لیے کیا حکم ہے، کیا وہ اپنی والدہ کو منع کرنے کی وجہ سے گنہگار ہوگا؟ بیوی ان چھگڑوں کی وجہ سے ذہنی مریضہ بن گئی ہے، شوہر اپنے بھائیوں سے ڈرتا بھی ہے۔

جواب: پہلی بات:
اسلام نے مرد کے ذمے ماں اور بیوی دونوں کے علیحدہ حقوق مقرر کئے ہیں اور دونوں کو علیحدہ حیثیت اورمرتبہ دیا ہے اس طور پر کہ دونوں کے مرتبہ اور مقام کو سمجھ کر اگر کوئی شخص ان کے حقوق پورے کرے تو کبھی ٹکراؤ کی نوبت ہی نہیں آئے۔
دوسری بات:
اللہ رب العزت نے ماں کے حقوق کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ ماں کی اطاعت وفرمانبرداری کو بھی لازم قرار دیا ہے، جبکہ بیوی کے صرف حقوق کی ادائیگی لازم ہے، نہ کہ اس کی اطاعت وفرمانبرداری، بلکہ بیوی کے ذمہ لازم ہے کہ وہ اپنے شوہر کی مطیع وفرمانبردار بن کے رہے۔ 
تیسری بات:
شوہر کے ذمے بیوی کا حق ہے کہ اس کو ایک علیحدہ کمرہ دیا جائے، جس میں کسی اور کا  عمل دخل نہ ہو۔
چوتھی بات:
اسلامی تعلیمات کے مطابق میاں بیوی کے رشتے میں قانونی ضابطوں کی بجائے اخلاقی معیاروں کی پاسداری مطلوب ہے۔ میاں بیوی میں سے ہر ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے، اور اپنے حقوق کے مطالبے کے بارے میں درگزر کرنے کا رویہ اپنانے کی ٹھان لے تو نہ میاں کو بیوی سے شکوہ ہوگا اور نہ بیوی کومیاں سے۔
لہذا اگر بیوی اپنے حق کو معاف کرکے ساس کو جگہ دے تو اس کے بدلہ اللہ تعالی اجر و ثواب عطاء فرمائیں گے۔
حدیث شریف میں ہے کہ عن ابي امامة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: انا زعيم ببيت في ربض الجنة لمن ترك المراء، وإن كان محقا، وببيت في وسط الجنة لمن ترك الكذب، وإن كان مازحا، وببيت في اعلى الجنة لمن حسن خلقه".(سنن ابي داود:
كِتَاب الْأَدَبِ، باب فِي حُسْنِ الْخُلُق
،حدیث نمبر: 4800)
ترجمہ:
حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”میں اس شخص کے لیے جنت کے اندر ایک گھر کا ضامن ہوں جو لڑائی جھگڑا چھوڑ دے، اگرچہ وہ حق پر ہو، اور جنت کے بیچوں بیچ ایک گھر کا اس شخص کے لیے، جو جھوٹ بولنا چھوڑ دے، اگرچہ وہ ہنسی مذاق ہی میں ہو، اور جنت کی بلندی میں ایک گھر کا اس شخص کے لیے جو خوش اخلاق ہو“۔
اس سلسلہ میں مرد کو بھی چاہیے کہ کچھ دن والدہ کو اپنے بھائیوں کے پاس ٹہرائے اور اگر پورا ہفتہ ٹہرانا مشکل ہو اور بیوی راضی نہ ہو تو دن کم کردیے جائیں اور کسی طرح حسن سلوک سے بیوی کو بھی راضی کرلیا جائے کہ اس کی حق تلفی بھی نہ ہو اور والدہ کی رضا جس پر جنت موقوف ہے، وہ بھی حاضل ہوجائے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

المستدرک علی الصحیحین: (167/4، ط: دار الکتب العلمیۃ)
عن عائشة، رضي الله عنها قالت: قلت: يا رسول الله أي الناس أعظم حقا على المرأة؟ قال: «زوجها» قلت: فأي الناس أعظم حقا على الرجل؟ قال: «أمه»

سنن ابی داؤد: (253/4، رقم الحدیث: 4800، ط: المکتبۃ العصریۃ)
عن أبي أمامة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أنا زعيم ببيت في ربض الجنة لمن ترك المراء وإن كان محقا، وببيت في وسط الجنة لمن ترك الكذب وإن كان مازحا وببيت في أعلى الجنة لمن حسن خلقه»

خلاصۃ الفتاوی: (53/2)
فی المنتقی إذا کان الرجل وامرأتہ فی لحاف لا بأس بأن یدخل علیھما الولد والأخ بعد أن لا ینکشف منھا محرم و بعد أن لا تکونا فی المجامعۃ۔

و فیھا ایضاً: (368/5)
قال أبو حنیفۃ و أبو یوسف رحمھما الله لاینبغی للرجل أن یدخل علی أمہ وبنتہ وأختہ إلا بإذن وکذا کل ذی رحم محرم وکذا العبد علی مولاتہ الخ

الدر المختار: (599/3، ط: دار الفکر)
(وكذا تجب لها السكنى في بيت خال عن أهله)

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 1124 Sep 23, 2019
saas ka raat ko baho ke / key kamre / kamray / room me / mein sone / soney ka hokom / hokum, Ruling of sleepinf of Mother-in-law's in daughter-in-law's room at night

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Nikah

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.