عنوان: دولہا نے نکاح کے وقت اپنا نام غلط لکھوایا ہو، تو اس کے نکاح کا حکم (2194-No)

سوال: السلام علیکم، حضرت ! مسئلہ یہ ہے کہ ایک شخص نے نکاح کرتے ہوئے جان بوجھ کر نام غلط لکھوایا ہے، اور وہ دوسری شادی کررہا تھا، اِس لیے اصلی نام چھپایا تھا، تو یہ نکاح ہو جائے گا؟ اور اس نے اپنی پہلی بِیوِی کو بتایا بھی نہیں، اِجازَت نہیں لی۔ کیا پہلی بیوی کی اجازت کے بغیر شادی ہوجاتی یے؟
جزاک اللہ

جواب: اگر دولہا مجلس نکاح میں موجود ہو اور اس کی طرف اشارہ کرکے اس سے نکاح کا ایجاب و قبول کرایا جائے، یا گواہان کو پتہ ہو کہ نکاح کرنے والا یہی شخص ہے، تو یہ نکاح درست ہے، اگرچہ دولہا کا نام غلط لکھا گیا ہو، لیکن ایسا کرنا دھوکہ دہی بھی ہے، بعد میں قانونی مشکلات کا باعث بھی ہے۔
بہر کیف! واضح رہے کہ اسلام میں ایک مرد کو چار بیویاں تک رکھنے کی اجازت ہے اور یہ اجازت مطلق ہے، لہذا پہلی بیوی یا دوسری بیوی کی اجازت ورضامندی پر یہ اجازت موقوف نہیں ہے، تاہم مصلحت کا تقاضہ یہ ہے پہلے موجودہ بیوی کی ذہن سازی کرکے اسے بھی راضی کرلیا جائے، اس کے بعد دوسری شادی کی جائے، تاکہ جھوٹ بھی نہ بولنا پڑے اور پہلی بیوی سے چھپنا بھی نہ پڑے، ورنہ پہلی بیوی کو دوسری بیوی کا علم ہونے پر، اس کی طرف سے ناخوش گوار حالات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے، جو کہ بعض مرتبہ آدمی کے لیے ناقابل برداشت ہوجاتا ہے۔
نیز ایک سے زائد بیویاں رکھ کر ان کے درمیان برابری، عدل وانصاف کرنا ضروری ہے، لہذا اگر کسی ایک بیوی کی طرف جھکاؤ ہو، اور اس کی وجہ سے دوسری کے حقوق واجبہ میں کوتاہی کی جائے، تو یہ سخت گناہ ہے اور قیامت کے دن ایسا شخص اس حال میں حاضر ہوگا کہ اس کا دھڑ ایک طرف کو ڈھلکا ہوا ہوگا جیسا کہ حدیث میں آیا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

مشكاة المصابيح:
عن أبي ھریرة رضي الله عنه عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم قال: ”إذا کانت عند الرجل امرأتان فلم یعدل بینھما جاء یوم القیامة وشقہ ساقط“.

فتح القدیر: (192/3)
"تزوج باسمھاالذی تعرف بہ، حتی لو کان لھا اسمان اسم فی صغرھا واخری فی کبرھا تزوج بالاخیر لانھا صارت معروفۃ بہ ۔۔۔ أما لو کانت حاضرۃ منتقبۃ فقال تزوجت ھذہ وقبلت جاز لأنھا صارت معروفۃ بالاشارۃ".

رد المحتار: (22/3)
"وما ذكروه في المرأة يجري مثله في الرجل ، ففي الخانية قال الإمام ابن الفضل: إن كان الزوج حاضرا مشارا إليه جاز ولو غائبا فلا ما لم يذكر اسمه واسم أبيه وجده".

و فیہ أيضا: (26/3)
"قوله ( إلا إذا كانت حاضرة الخ ) راجع إلى المسألتين أي فإنها لو كانت مشارا إليها وغلط في اسم أبيها أو اسمها لا يضر لأن تعريف الإشارة الحسية أقوى من التسمية لما في التسمية من الاشتراك لعارض فتلغو التسمية عندها كما لو قال اقتديت بزيد هذا فإذا هو عمرو فإنه يصح".

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 1463 Oct 01, 2019
dolha ne / ney nikay ke / key waqt apna naam ghalat likhwaya ho, to is ke / key nikah ka hokom / hokum, If the groom has typed his name wrong at the time of marriage, then the ruling on his marriage

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Nikah

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.