سوال:
إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَىٰ وَالصَّابِئِينَ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ - (سورة البقرة؛ آیت نمبر62)
ترجمہ: حق تو یہ ہے کہ جو لوگ بھی، خواہ وہ مسلمان ہوں یا یہودی یا نصرانی یا صابی، اللہ و آخرت کے دن پر ایمان لے آئیں گے اور نیک عمل کریں گے، وہ اپنے پروردگار کے پاس اپنے اجر کے مستحق ہوں گے، اور ان کو نہ کوئی خوف ہوگا، نہ وہ کسی غم میں مبتلا ہوں گے۔
مفتی صاحب ! اس آیت سے یہ معلوم ہورہا ہے کہ جو شخص اللہ اور آخرت پر ایمان لے کر آئے گا، اس کا ایمان لانا کافی ہے، اگرچہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہ رکھتا ہو، کیا میں اس آیت کو صحیح سمجھا ہوں؟ اگر جواب نہیں میں ہے تو برائے کرم اس کی صحیح تفسیر سے مطلع فرمادیں۔
جواب: مذکورہ آیت کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہےکہ صرف اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لانا نجات کے لیے کافی ہے، انبیاء علیہم الصلاة والسلام اور ملائکہ وغیر پر ایمان لانا ضروری نہیں،کیونکہ قرآن کریم کی بہت ساری آیات اس بات پر صراحتاً دلالت کرتی ہیں کہ جو شخص انبیاء اور ملائکہ کا انکار کرے، وہ قطعاً کافر ہے۔
واضح رہے کہ اس آیت سے مراد یہ ہے کہ سلسلہ ایمان میں جن جن چیزوں پر ایمان لانا ضروری ہے اول سے آخرت تک سب پر ایمان لائے، چونکہ سلسلۂ ایمان کی ابتداء اللہ تعالی سے شروع ہو کر انتہاء آخرت کے دن پر ہوتی ہے،اس لیے اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لانے کی تخصیص کی گئی،جیسا کہ رب المشارق والمغارب میں ابتداء اور انتہاء کو ذکر کرکے تمام سلسلے شمال و جنوب کے بھی مراد لیے گئے۔ نیز اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لانا اس وقت تک ممکن نہیں جب تک انبیاء، ملائکہ اورصحف سماویہ پر ایمان نہ لائے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات اور آخرت کے احوال کی معرفت کا ذریعہ انبیاء اور صحف الٰہیہ ہی ہیں اور وحی اور صحیفہ ربانی کا نزول فرشتہ کی وساطت سے ہوتا ہے۔
خلاصہ یہ کہ ایمان باللہ اور ایمان بیوم الاخرة موقوف ہے ایمان بالانبیاء ، ایمان بالملائکہ اور ایمان بالکتب پر، اس لیے ان تین چیزوں پر ایمان لانے کو علیحدہ بیان نہیں کیا گیا۔
( مستفاد از تفسیر معارف القرآن مولاناادریس کاندهلوی صاحب، 194/1، ط: مکتنة المعارف)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی