سوال:
السلام علیکم،
مفتی صاحب ! میرا مسئلہ یہ ہے کہ بہن یا بیٹی کو شادی کے دن رخصت کرنے کا شرعی طریقہ کار کیا ہے؟ اور ساتھ میں کوئی منقول ذکر (ورد)اگر ہے، اس کی بھی راہ نمائی فرمائیں۔
جواب: ۱- واضح رہے کہ شادی جناب نبی اکرم صلی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک سنت ہے، اس سنت میں شریعت نے سادگی کو پسند کیا ہے، لہذا اس موقع پر فضول خرچی اور نام و نمود کرنا منع ہے۔
ارشاد باری تعالی ہے:
﴿وَلاَ تُبَذِّرْ تَبْذِیْراً،إِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ کَانُواْ إِخْوَانَ الشَّیَاطِیْنِ وَکَانَ الشَّیْْطَانُ لِرَبِّہِ کَفُوراً﴾․
(سورۃ الاسراء:٢۶-٢٧)
ترجمہ:
فضول خرچی مت کرو، فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا ناشکرا ہے۔
حدیث مبارک میں ہے:
"إن اعظم النکاح برکة أیسرہ مؤونة".
(مسند احمد رقم: ۲۴۵۲۵)
ترجمہ :حضرت عائشۃ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس نکاح میں سب سے زیادہ برکت ہوتی ہے، جس میں کم سے کم خرچ ہو۔
لہذا نکاح کے بعد رخصتی کا کوئی خاص طریقہ شریعت سے ثابت نہیں ہے اور نہ ہی کسی رسم و رواج اور بارات وغیرہ کا ثبوت ملتا ہے۔
اتنی بات ثابت ہے کہ نکاح کے بعد لڑکی کے گھر والے چاہیں، تو لڑکی کو اپنے گھرانے کی معتمد خواتین کے ساتھ یا لڑکے کی طرف سے آنے والی اس کی رشتہ دار خواتین کے ساتھ رخصت کر سکتے ہیں، دونوں طرح درست ہے۔
۲- رخصتی کا کوئی خاص وظیفہ ہمارے علم میں نہیں ہے، لیکن اس موقع پر والدین اگر اپنی بیٹی کے لیے اس کی آئندہ زندگی میں دنیا و آخرت کی صلاح و فلاح کی دعا کریں تو مناسب ہے۔
واللہ تعالی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی