سوال:
میرے کزن کے شوہر ٹی وی ڈراموں کی پروڈکشن اور ڈائریکشن کے شعبے میں ایک نجی ٹی وی چینل کے لیے کام کرتے ہیں، وہ اسے پسند نہیں کرتی لیکن اس کے پاس کوئی چارہ نہیں ہے۔ کیا ایسے پیشے کی کمائی حلال ہے یا حرام؟ نیز بیوی کی حیثیت سے وہ اپنی اور بچوں کی حفاظت کے لیے کیا کر سکتی ہے؟
جواب: 1) واضح رہے کہ کسی بھی پیشے کی آمدنی کی حلت و حرمت کا دار و مدار اس پیشے کے اصل کام کے حلال یا حرام ہونے پر منحصر ہوتا ہے، مروّجہ ٹی وی ڈراموں کی پروڈکشن اور ڈائریکشن میں بنیادی کام کے طور پر بہت سارے ناجائز امور کا ارتکاب بھی لازم آتا ہے، مثلاً: عورتوں کی تصویر کشی، ان کے ساتھ مخلوط مجالس، موسیقی اور عورتوں کی تصاویر پر مشتمل مناظر کی نشر و اشاعت میں بنیادی کردار اسی شعبے کا ہوتا ہے، اسی طرح اور بھی کئی ناجائز امور (مثلاً بے حیائی کے عناصر) اس میں پائے جاتے ہیں، نیز اس میں جائز اور ناجائز کاموں کو ایک دوسرے سے الگ اور ممتاز بھی نہیں کیا جاسکتا، پورا ڈرامہ موسیقی یا عورتوں کے مناظر پر مشتمل ہوتا ہے، لہٰذا جو شخص اس شعبے سے وابستہ ہو، اس کی آمدنی حلال نہیں ہے۔
2) جہاں تک بیوی سے متعلق سوال ہے تو واضح رہے کہ بیوی شوہر کو سمجھانے اور تلقین کرنے کی حد تک مکلّف ہے، لہٰذا وه حکمت اور دانائی کے ساتھ شوہر کو یہ کمائی چھوڑ کر کوئی اور کام تلاش کرنے کی مسلسل تلقین کرتی رہے۔ اگر مسلسل کوشش اور تلقین کے باوجود بھی شوہر یہ کام نہیں چھوڑتا اور بیوی کے پاس اپنا کوئی مال موجود نہیں ہے جس کی وجہ سے بیوی کو شوہر کے ناجائز مال سے اپنا گزر بسر کرنا پڑتا ہے تو ایسی صورت میں مال حرام کھلانے کا گناہ شوہر کو ہوگا، بیوی اس کی مکلّف نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الهندية: (349/5، ط: دار الفكر)
وفي المنتقى إبراهيم عن محمد - رحمه الله تعالى - في امرأة نائحة أو صاحب طبل أو مزمار اكتسب مالا قال إن كان على شرط رده على أصحابه إن عرفهم يريد بقوله على شرط إن شرطوا لها في أوله مالا بإزاء النياحة أو بإزاء الغناء وهذا لأنه إذا كان الأخذ على الشرط كان المال بمقابلة المعصية فكان الأخذ معصية والسبيل في المعاصي ردها وذلك هاهنا برد المأخوذ إن تمكن من رده بأن عرف صاحبه وبالتصدق به إن لم يعرفه ليصل إليه نفع ماله إن كان لا يصل إليه عين ماله أما إذا لم يكن الأخذ على شرط لم يكن الأخذ معصية والدفع حصل من المالك برضاه فيكون له ويكون حلالا له.
العناية: (98/9، ط: دار الفكر)
(ولا يجوز الاستئجار على سائر الملاهي لأنه استئجار على المعصية والمعصية لا تستحق بالعقد) فإنه لو استحقت به لكان وجوب ما يستحق المرء به عقابا مضافا إلى الشرع وهو باطل.
رد المحتار: (191/6، ط: دار الفكر)
وفي جامع الجوامع: اشترى الزوج طعاما أو كسوة من مال خبيث جاز للمرأة أكله ولبسها والإثم على الزوج تتارخانية.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی