سوال:
مفتی صاحب! برائے مہربانی درج ذیل حدیث کی تشریح اور وضاحت فرمائیں:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جن دیناروں پر اجر ملتا ہے ان میں سے) ایک دینار وہ ہے جسے تو نے اللہ کی راہ میں خرچ کیا، ایک دینار وہ ہے جسے تو نے کسی کی گردن (کی آزادی) کے لیے خرچ کیا، ایک دینار وہ ہے جسے تو نے مسکین پر صدقہ کیا اور ایک دینار وہ ہے جسے تو نے اپنے گھر والوں پر صرف کیا، ان میں سب سے عظیم اجر اس دینار کا ہے جسے تو نے اپنے اہل پر خرچ کیا۔ (صحیح مسلم، حدیث نمبر:995)
جواب: سوال میں ذکر کردہ حدیث "صحیح مسلم" میں موجود ہے، جس کا ترجمہ اور تشریح درج ذیل ہے:
ترجمہ: حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ایک وہ دینار ہے جسے تم اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور ایک وہ دینار ہے جسے تم کسی غلام پر خرچ کرو اور وہ دینار ہے جو تم کسی مسکین پر خرچ کرو اور ایک وہ دینار ہے جو اپنے گھر والوں پر خرچ کرو، ان میں سب سے زیادہ اجر والا دینار وہ ہے جو اپنے گھر والوں پر خرچ کرتے ہو۔ (صحیح مسلم، حدیث نمبر:995)
تشریح: امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیںکہ اس حدیث کا مقصد اہل وعیال پر خرچ کرنے کی ترغیب دینا اور اس کے عظیم اجر کو بیان کرنا ہے، کیونکہ اہل وعیال میں بعض وہ ہوتے ہیں کہ جن پر خرچ کرنا رشتہ داری کی وجہ سے واجب ہوتا ہے، اور بعض وہ ہوتے ہیں کہ جن پر خرچ کرنا مستحب ہوتا ہے اور وہ صدقہ اور صلہ رحمی کا درجہ رکھتا ہے، اور بعض کا خرچ نکاح یا مالک ہونے کی بنا پر واجب ہوتا ہے، ان سب پر خرچ کرنا فضیلت کا باعث اور پسندیدہ عمل ہے اور یہ نفلی صدقے سے بہتر ہے۔ اسی لیے نبی کریم ﷺ نے ابن ابی شیبہ کی روایت میں فرمایا: "سب سے زیادہ اجر والا خرچ وہ ہے جو تم اپنے گھر والوں پر خرچہ کرتے ہو"۔ حالانکہ اس سے پہلے آپ ﷺ نے اللہ کے راستے میں خرچ کرنے، غلام آزاد کرنے اور صدقہ کرنے کا ذکر کیا ہے، لیکن پھر بھی آپ ﷺ نے اپنے اہل وعیال پر خرچ کرنے کو سب سے زیادہ اجر والا قرار دیا۔ (مستفاد از فتح الملھم)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
صحیح مسلم: (باب فَضْلِ النَّفَقَةِ عَلَى الْعِيَالِ وَالْمَمْلُوكِ وَإِثْمِ مَنْ ضَيَّعَهُمْ أَوْ حَبَسَ نَفَقَتَهُمْ عَنْهُمْ، رقم الحدیث: 995، ط: دار احیاء التراث العربي)
عن ابي هريرة ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " دينار انفقته في سبيل الله، ودينار انفقته في رقبة، ودينار تصدقت به على مسكين، ودينار انفقته على اهلك، اعظمها اجرا الذي انفقته على اهلك".
فتح الملهم: (باب فضل النفقة علی العیال والمملوك، وإثم من ضیعهم أو حبس نفقتهم عنهم، 53/5، ط: دار العلوم کراتشي)
قوله: ((اعظمها اجرا الذی)) الخ: قال النووی رحمه الله: مقصوده: الحث علی النفقة علی العیال، وبیان عظم الثواب فیه؛ لأن منهم من تجب نفقته بالقرابة، ومنهم من تکون مندوبة، وتکون صدقة وصلة، ومنهم من تکون واجبة بملك النكاح، أو ملك اليمين، وهذا کله فاضل محثوث علیه، وهو أفضل من صدقة التطوع، ولهذا قال ﷺ في رواية ابن أبی شيبة: ((أعظمها أجراً: الذی أنفقته علی أهلك)) مع أنه ذکر قبله النفقة في سبیل الله، وفي العتق والصدقة، ورجّح النفقة علی العیال علی هذا کله؛ لما ذکرناه.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی