سوال:
مفتی صاحب! پوچھنا یہ ہے کہ ایک ادارے میں کوئی ملازمت کر رہا ہے، اس کو وہی کرنا پڑتا ہے جو اس کو کہا جاتا ہے، چاہے وہ صحیح ہو یا غلط، اس کی کمائی حلال ہے یا حرام؟
جواب: پوچھی گئی صورت میں اگر ادارے کا کام جائز ہو اور ملازم بھی جائز خدمات (services) سر انجام دیتا ہو تو اس کے عوض ملنے والی طے شدہ اجرت ملازم کیلئے حلال ہوگی۔
اگرآپ کسی مخصوص ادارے یا مخصوص کام کی نوعیت کے بارے میں پوچھنا چاہ ر ہے ہیں تو اس کی مکمل تفصیلات لکھ کر دوبارہ دریافت کر سکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (المائدة، الایة: 2)
*وَتَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوٰى ۖ وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ۚ وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۖ اِنَّ اللّٰهَ شَدِيْدُ الْعِقَابِo
فقه البیوع: (1057/2، ط: معارف القرآن)
والحاصل ان الاجارۃ فی الخدمة المباحة انما تصح اذا کانت اجرتھا معلومة بانفرادھا، ولا تصح فیما اذا لم تکن اجرتھا معلومة. فان کان کذلك فی خدمات الفنادق والمطاعم والبنوک وشرکات التامین صارت اجرۃ الموظف فیھا مرکبة من الحلال والحرام. فدخلت فی الصورۃ الثالثة من القسم الثالث، وحل التعامل معه بقدر الحلال. اما اذا لم تعرف اجرۃ الخدمة المباحة علی حدتھا فالاجارۃ فاسدۃ ولکن الاجیر یستحق اجر المثل فی الاجارات الفاسدۃ
واللہ تعالی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی