عنوان: تاش کھیلنے کا حکم (2243-No)

سوال: السلام علیکم و رحمۃاللہ و برکاتہ ، حضرت ! یہ فرمائیے کہ اسلام میں تاش کھیلنے کے بارے میں کیا حکم ہے، جبکہ اس میں شرط لگا کر نہ کھیلا جائے؟ اگر اس حکم کی نقلی دلیل اور عقلی وجہ بھی بیان فرما دیں، تو نوازش ہو گی۔ جزاک اللہ خیرا

جواب: 1 ۔واضح رہے کہ ایک کامیاب مسلمان اور مؤمن کی پہچان یہ یے کہ وہ لغو اور فضول کاموں سے اپنے آپ کو دور رکھے۔
قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ نے کامیاب مؤمنین کی صفت یہ بیان فرمائی ہے کہ: {وَالَّذِیْنَ ہُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ} [المؤمنون: ۳]
یعنی فلاح یاب مؤمنین وہ ہیں، جو لغو اور فضول باتوں سے الگ رہتے ہے۔
لہٰذا ہر ایسا کام جس سے کوئی دینی فائدہ حاصل نہ ہو، اُس میں اپنا قیمتی وقت ضائع کرنا درست نہیں ہے،
اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: 
عن أبي ھریرۃ رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من حسن إسلام المرء ترکہ ما لا یعنیہ۔
(سنن الترمذي، أبواب الزہد، حدیث نمبر:٢٣١٧)
ترجمہ: "انسان کے اسلام کی خوبی، اُس کا بے فائدہ چیزوں کا چھوڑدینا ہے"
اِس لئے مسلمان کو چاہئے کہ اِس لغو اور بے کار چیز کو بالکل چھوڑدیں، اور عمر کے قیمتی لمحات کو بہت غنیمت سمجھیں،اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اِس عمر کے بارے میں بھی سوال کرے گا کہ تم نے اپنی عمر کہاں اور کن کاموں میں صرف کی؟ اِس لئے وقت کو غنیمت جان کر آخرت کی تیاری کرنی چاہیے ۔
2 ۔ جسمانی یا دماغی تفریح کے لئے، جو کھیل کھیلا جاتا ہے، وہ چار
شرطوں کے ساتھ جائز ہوجاتا ہے۔
١۔ جو کھیل کھیلا جائے، وہ کھیل کفار کا شعار نہ ہو۔
٢۔کھیل میں ہار جیت کی شرط نہ ہو۔
٣۔اس میں مشغول ہونے کی وجہ سے نماز، روزہ جیسی عبادات یامعاشی مشغولیت میں نقصان دہ نہ ہو۔
٤۔ کھیل میں کوئی خلاف شرع امر نہ ہو۔
حضرت مفتی کفایت اللہ صاحب رحمہ اللہ " کفایة المفتی" میں لکھتے ہیں کہ “تاش، چوسر، شطرنج، لہو و لعب کے طور پر کھیلنا مکروہِ تحریمی ہے اور عام طور پر کھیلنے والوں کی غرض یہی ہوتی ہے، نیز ان کھیلوں میں مشغولی اکثر طور پر فرائض و واجبات کی تفویت (فوت کردینے) کا سبب بن جاتی ہے، اس صورت میں اس کی کراہت حدِ حرمت تک پہنچ جاتی ہے۔”
لہذا تاش کھیلنا اگر ہار جیت کی شرط کے ساتھ نہ ہو تو مذکورہ بالا شرائط کی رعایت کے ساتھ کھیلنے کی گنجائش ہے، لیکن بہرحال اجتناب بہتر ہے، حدیث شریف میں آتا ہے کہ
عن سليمان بن بريدة , عن ابيه، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" من لعب بالنردشير فكانما غمس يده في لحم خنزير ودمه".
ترجمہ:
بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا: ”جس نےنردشیر (چوسر) کھیلا گویا اس نے اپنا ہاتھ سور کے گوشت اور خون میں ڈبو دیا۔(سنن ابی داؤد:حدیث نمبر:4939،صحیح مسلم: حدیث نمبر 2260)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

تکملۃ فتح الملہم: (434/4)
فالضابط في ہٰذا الباب … أن اللہو المجرد الذي لا طائل تحتہ، ولیس لہ غرض صحیح مفید في المعاش ولا المعاد حرامٌ أو مکروہٌ تحریمًا … وما کان فیہ غرض ومصلحۃ دینیۃ أو دنیویۃ، فإن ورد النہي عنہ من الکتاب أو السنۃ … کان حرامًا أو مکروہًا تحریمًا … وأما ما لم یرد فیہ النہي عن الشارع، وفیہ فائدۃ ومصلحۃ للناس، فہو بالنظر الفقہي علی نوعین: الأول: ما شہدت التجربۃ بأن ضررہ أعظم من نفعہ، ومفاسدہ أغلب علی منافعہ، وأنہ من اشتغل بہ ألہاہ عن ذکر اللّٰہ وحدہ، الصلوات والمساجد، التحق ذٰلک بالمنہي عنہ، لاشتراک العلۃ، فکان حرامًا أو مکروہًا۔ والثاني: ما لیس کذٰلک، فہو أیضًا إن اشتغل بہ بنیۃ التلہي والتلاعب فہو مکروہٌ۔ وإن اشتغل بہ لتحصیل تلک المنفعۃ، وبنیۃ استجلاب المصلحۃ فہو مباح؛ بل قد یرتقي إلی درجۃ الاستحباب أو أعظم منہ … وعلی ہٰذا الأصل فالألعاب التي یقصد بہا ریاضۃ الأبدان أو الأذہان جائزۃ في نفسہا ما لم تشتمل علی معصیۃ أخریٰ، وما لم یؤد الانہماک فیہا إلی الإخلال بواجب الإنسان في دینہ ودنیاہ۔ واللہ سبحانہ أعلم۔

واللہ تعالی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 2364 Oct 11, 2019
taash khelne ka hukum / hukm, Ruling on playing cards

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Prohibited & Lawful Things

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.