عنوان: نماز میں قصر اور اتمام کا اعتبار سفر کے آخری وقت کے حساب سے ہوگا (22456-No)

سوال: السلام علیکم ورحمۃ اللہ! امید ہے کہ تمام حضرات خیریت سے ہوں گے، اللہ پاک اپ کی کوششوں اور محنت کو قبول فرمائے، آپ کی عمر میں صحت میں خیر و برکتیں عطا فرمائے آمین
مفتی صاحب! ایک شخص ٹرین میں سفر کر رہا ہے حیدراباد پہنچ کر ظہر کی نماز کا وقت ہو جاتا ہے اور ٹرین کے اوقات کے مطابق وہ یہ محسوس کرتا ہے کہ میں کراچی پہنچ کر ظہر کی نماز مکمل ادا کرلوں گا، جب ٹرین کراچی پہنچتی ہے تو ظہر کا وقت بہت مختصر رہ جاتا ہے، سامان اتارنے اور مسجد تک پہنچنے میں وہ وقت بھی نکل جاتا ہے، اب سوال یہ ہے کہ وہ شخص ظہر کی قصر ادا کرے گا یا پوری نماز قضا کرے گا؟ جزاک اللّہ خیرا
تنقیح: محترم اس بات کی وضاحت فرمائیں کہ یہ شخص کراچی کا رہائشی ہے یا یہاں مسافر ہے اور اگر مسافر ہے تو کراچی کتنے دنوں کے لیے آیا ہے؟ اس وضاحت کے بعد ہی آپ کے سوال کا جواب دیا جاسکے گا۔ جزاک اللہ خیرا
جواب تنقیح: مفتی صاحب یہ شخص کراچی کا رہائشی ہے اور یہ اسلام آباد سے واپسی کے سفر پر تھا۔

جواب: واضح رہے کہ نماز کا وقت ختم ہوتے وقت آدمی جس حالت (سفر/اقامت) میں ہو، اسی حالت کا اعتبار کیا جائے گا۔
لہذا سوال میں ذکر کردہ صورت میں چونکہ مسافر ظہر کا وقت ختم ہونے سے پہلے اپنے شہر کراچی پہنچ گیا تھا، لہذا اس کے ذمہ ظہر کی پوری نماز قضا کرنا لازم ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

الدر المختار مع رد المحتار: (131/2، ط: دار الفكر)
(والمعتبر في تغيير الفرض آخر الوقت) وهو قدر ما يسع التحريمة (فإن كان) المكلف (في آخره مسافرا وجب ركعتان وإلا فأربع) لأنه المعتبر في السببية عند عدم الأداء قبله.
(قوله وجب ركعتان) أي وإن كان في أوله مقيما وقوله: وإلا فأربع أي وإن لم يكن في آخره مسافرا بأن كان مقيما في آخره فالواجب أربع. قال في النهر: وعلى هذا قالوا لو صلى الظهر أربعا ثم سافر أي في الوقت فصلى العصر ركعتين ثم رجع إلى منزله لحاجة فتبين أنه صلاهما بلا وضوء صلى الظهر ركعتين والعصر أربعا لأنه كان مسافرا في آخر وقت الظهر ومقيما في العصر.

تبیین الحقائق: (215/1، ط: المطبعة الكبرى الأميرية)
قال رحمه الله (‌والمعتبر ‌فيه ‌آخر ‌الوقت) أي المعتبر في وجوب الأربع أو الركعتين آخر الوقت فإن كان آخر الوقت مسافرا وجب عليه ركعتان وإن كان مقيما وجب عليه الأربع؛ لأنه المعتبر في السببية عند عدم الأداء في أول الوقت؛ ولهذا لو بلغ الصبي أو أسلم الكافر أو أفاق المجنون أو طهرت الحائض أو النفساء في آخر الوقت تجب عليهم الصلاة وبعكسه لو حاضت أو جن أو نفست فيه لم تجب عليهم لفقد الأهلية عند وجود السبب.

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 41 Nov 04, 2024

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Salath (Prayer)

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.