سوال:
مفتی صاحب! میرا سوال یہ ہے کہ میں ملازم ڈرائیور ہوں، راستے میں جس نماز کا وقت ہوتا ہے، ہم اللہ کے فضل سے نماز کے لیے روکتے ہیں، ظہر، مغرب اور عشاء کے بعد جو نفل ہیں جن صاحب کے ساتھ ڈیوٹی ہے وہ تھوڑی جلدی پڑھ لیتے ہیں اور مجھے تھوڑا ٹائم لگتا ہے، اس کے بعد تسبیحات بھی ہوتی ہیں، کیا میں ان تسبیحات کو چھوڑسکتا ہوں کیونکہ بعد میں ان نوافل کا ٹائم ختم ہو جاتا ہے اور مجھے افسوس ہوتا ہے؟
جواب: نماز کے بعد تسبیحات کا پڑھنا مستحب ہے، یعنی ان کے پڑھنے میں ثواب ہے اور نہ پڑھنے پر کوئی گناہ نہیں ہے۔
بہتر تو یہ ہے کہ آدمی سنن و نوافل کے بعد اپنی نماز پڑھنے کی جگہ پر ہی مکمل تسبیحات پڑھ لے، لیکن اگر کوئی ضروری کام ہو تو مسجد سے نکل کر بھی تسبیحات پڑھی جاسکتی ہیں، البتہ اس صورت میں کوشش یہ کرنی چاہیے کہ تسبیحات مکمل کرنے سے پہلے کسی سے بات چیت نہ کرے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار: (قبیل فصل فی القراءۃ، 530/1، ط: دار الفکر)
ویستحب ان یستغفر ثلاثاً ،ویقراآیۃ الکرسی والمعوذات ویسبح ویحمدہ ویکبر ثلاثا وثلاثین ،ویہلل تمام المائۃ ویدعو ویختم بسبحان ربک ۔
رد المحتار: (503/1، ط: دار الفکر)
وتبعه على ذلك تلميذه في الحلية، وقال: فتحمل الكراهة في قول البقالي على التنزيهية لعدم دليل التحريمية، حتى لو صلاها بعد الأوراد تقع سنة مؤداة، لكن لا في وقتها المسنون، ثم قال: وأفاد شيخنا أن الكلام فيما إذا صلى السنة في محل الفرض لاتفاق كلمة المشايخ على أن الأفضل في السنن حتى سنة المغرب المنزل أي فلا يكره الفصل بمسافة الطريق۔
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی