سوال:
میں نے پوچھنا ہے کہ اگر آدمی اپنی بیوی کو کہے کہ "آج کے بعد تم نے کبھی اپنی بہن سے بات نہیں کرنی ہے اگر کی تو نکاح ختم" تو کیا ایک بار بات کرنے سے نکاح ختم ہوجائے گا یا تجدید نکاح کے بعد دوبارہ بات کرلے تو پھر دوبارہ نکاح ختم ہوجائے گا؟
جواب: سوال میں ذکر کردہ صورت میں اگر مذکورہ عورت نے اپنی بہن سے بات کرلی تو اس پر ایک طلاقِ بائن واقع ہو جائے گی بشرطیکہ یہ جملہ کہتے وقت شوہر کی نیت طلاق کی ہو، لیکن اگر شوہر کی نیت طلاق کی نہ ہو تو اس جملے سے کوئی طلاق واقع نہ ہوگی۔
طلاق کی نیت ہونے کی صورت میں صرف ایک مرتبہ ہی طلاق بائن واقع ہوگی، جس کی وجہ سے عورت اس شخص کے نکاح سے نکل جائے گی اور اس کے بعد شوہر کو بلا نکاح رجوع کا اختیار حاصل نہ ہوگا، لہذا اگر شوہر دوبارہ نکاح کرنا چاہے (خواہ دورانِ عدت یا عدت گزرنے کے بعد) تو عورت کی رضامندی سے نئے مہر کے ساتھ نکاح کر سکتا ہے اور اس کے بعد شوہر کو صرف دو طلاقوں کا اختیار حاصل ہوگا۔
باہمی رضامندی سے دوبارہ نکاح کرنے کے بعد اگر مذکورہ عورت اپنی بہن سے بات کرے گی تو اس پر دوسری طلاق واقع نہ ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار مع رد المحتار: (352/3، ط: دار الفكر)
(وفيها) كلها (تنحل) أي تبطل (اليمين) ببطلان التعليق (إذا وجد الشرط مرة إلا في كلما فإنه ينحل بعد الثلاث) لاقتضائها عموم الأفعال
(قوله أي تبطل اليمين) أي تنتهي وتتم، وإذا تمت حنث فلا يتصور الحنث ثانيا إلا بيمين أخرى لأنها غير مقتضية للعموم والتكرار لغة نهر (قوله ببطلان التعليق) فيه أن اليمين هنا هي التعليق (قوله إلا في كلما) فإن اليمين لا تنتهي بوجود الشرط مرة، وأفاد حصره أن متى لا تفيد التكرار، وقيل تفيده. والحق أنها إنما تفيد عموم الأوقات، ففي متى خرجت فأنت طالق المفاد أن أي وقت تحقق فيه الخروج يقع الطلاق ثم لا يقع بخروج آخر.
الهندية: ( 1/ 375، ط: دار الفكر)
ولو قال لها لا نكاح بيني وبينك أو قال لم يبق بيني وبينك نكاح يقع الطلاق إذا نوى.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص کراچی