سوال:
میری ایک دوکان تھی جس میں میرے بیٹے مرحوم محمد الیاس نے سائیکل کا کام چلایا، کچھ عرصہ بعد میں نے اپنی ایک زمین دو لاکھ اسی ہزار روپے میں بیچ کر اور الیاس نے اپنی دکان کا سامان بیچ کر اس دکان میں ہی موٹر سائیکل کے پارٹس بیچنے کا کام شروع کیا اور 2015 سے اب تک وہ یہی کام چلاتا رہا، اس کے بچے چھوٹے تھے، ہمیں خرچہ میں پانچ ہزار دیتا تھا، ہم کرایے کے گھر میں رہتے تھے اور اس کا اپنا ذاتی گھر تھا، اب 29 اکتوبر 2024 کو میرے بیٹے کا ایکسیڈنٹ میں انتقال ہوگیا۔ میرے بیٹے کی ایک بیوی اور چار بچے ہیں، جن میں تین بیٹے اور ایک بیٹی شامل ہے۔ میری بہو کا کہنا ہے کہ میں دوکان بیچنا چاہتی ہوں، میرا اور میرے بیٹے کا گھر الگ الگ ہے، مگر ہمارے آپسی تعلقات اچھے تھے، کوئی اختلاف نہیں تھا ضرورتاً الگ رہتے تھے اور اس وقت اس دوکان کی قیمت چالیس (40) لاکھ سے اوپر ہے۔
آپ صاحبان سے گذارش ہے کہ ہماری رہنمائی فرمائیں کہ اس میں ہمارا کتنا حصہ ہے اور بہو اور ان کے بچوں کا کتنا کتنا حصہ ہوگا؟ مرحوم بیٹے کے والدین زندہ ہیں۔
تنقیح: والد اور بیٹے نے شراکت داری میں نیا کام شروع کیا تھا یا والد نے معانت کے لیے پیسے دیے تھے؟
جواب تنقیح: ہم نے کوئی بات طے تو نہیں کی تھی کہ معاونت ہے یا شراکت، لیکن چونکہ دوکان میری تھی اور بیٹا مجھے ماہانہ خرچ دیتا تھا تو میں نے رقم بھی اسی لیے دی تو ایک طرح سے شراکت ہی تھی کیونکہ ہم نے کوئی تقسیم نہیں کی تھی، ہم ضرورتاً الگ الگ رہتے تھے۔
جواب: واضح رہے کہ اگر والد نے بیٹے کو پیسے شراکت داری کی صراحت کے ساتھ دیے تھے تو اس صورت میں اتنے فیصد کاروبار میں والد کا حصہ ہوگا اور اگر شراکت کی صراحت کے بغیر ہدیتاً (Gift) دیے تھے تو اس صورت میں اس کاروبار کا تنہا مالک بیٹا ہوگا، تاہم دونوں صورتوں میں چونکہ دکان والد کی ملکیت ہے، اس لیے دکان میں بیٹے یا اس کی بیوی بچوں کا کوئی حصہ نہیں ہوگا۔
مرحوم کی تجہیز و تکفین کے جائز اور متوسط اخراجات، قرض کی ادائیگی اور اگر کسی غیر وارث کے لیے جائز وصیت کی ہو تو ایک تہائی (1/3) میں وصیت نافذ کرنے کے بعد کل جائیداد منقولہ و غیر منقولہ کو ایک سو اڑسٹھ (168) حصوں میں تقسیم کیا جائے گا، جس میں سے بیوی کو اکیس (21)، تینوں بیٹوں میں سے ہر ایک بیٹے کو چھبیس (26)، بیٹی کو تیرہ (13)، والد کو اٹھائیس (28) اور والدہ کو اٹھائیس (28) حصے ملیں گے۔
اگر فیصد کے اعتبار سے تقسیم کریں تو بیوی کو %12.5 فیصد، تینوں بیٹوں میں سے ہر ایک بیٹے کو %15.47 فیصد، بیٹی کو %7.73 فیصد، والد کو %16.66 فیصد اور والدہ کو %16.66 فیصد حصہ ملے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (النساء، الایة: 11)
يُوصِيكُمُ ٱللَّهُ فِىٓ أَوْلَٰدِكُمْ ۖ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ ٱلْأُنثَيَيْنِ ۚ۔۔۔ وَلِأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَٰحِدٍۢ مِّنْهُمَا ٱلسُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِن كَانَ لَهُۥ وَلَدٌ ۚ... الخ
و قوله تعالیٰ: (النساء، الایة: 12)
فَإِن كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُم مِّن بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْن ... الخ
تنقیح الفتاوی الحامدیة: (کتاب الکفالة، 288/1، ط: دار المعرفة)
"المتبرع لا يرجع على غيره كما لو قضى دين غيره بغير أمره."
شرح المجلة لسلیم رستم باز: (المادۃ: 1398، 741/2)
"إذا عمل رجل في صنعۃ ہو وابنہ الذي في عیالہ فجمیع الکسب لذلک الرجل، وولدہ یعد معینا لہ، فیہ قیدان احترازیان کما تشعر عبارۃ المتن، الأول: أن یکون الابن في عیال الأب، الثاني: أن یعملا معا في صنعۃ واحدۃ إذ لو کان لکل منہما صنعۃ یعمل فیہا وحدہ فربحہ لہ".
الدر المختار مع رد المحتار: (709/5، ط: دار الفکر)
دفع لابنه مالا ليتصرف فيه ففعل وكثر ذلك فمات الأب إن أعطاه هبة فالكل له، وإلا فميراث وتمامه في جواهر الفتاوى.
(قوله: وإلا فميراث) بأن دفع إليه ليعمل للأب.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی