سوال:
میں نے اپنی بیوی کو دو طلاق دی ہیں، اگر میں تجدیدِ نکاح کرنا چاہوں تو کیا دو گواہوں کا ہونا ضروری ہے یا میں بغیر گواہوں کے ایک مولوی اور اپنی بیوی کی موجودگی اور رضامندی کے ساتھ نکاح کی تجدید کرسکتا ہوں؟
جواب: سوال میں ذکر کردہ صورت میں اگر شوہر نے بیوی کو طلاق بائن دی ہو یا طلاق رجعی دی ہو اور شوہر کے رجوع کرنے سے پہلے ہی بیوی کی عدّت گزر چکی ہو تو ان دونوں صورتوں میں رجوع کرنے کے لیے باہمی رضامندی سے نئے مہر کے ساتھ شرعی گواہوں کی موجودگی میں نکاح کرنا ضروری ہوگا۔ مجلسِ عقد میں نکاح کے لیے بطور گواہ میاں بیوی کے علاوہ دو عاقل بالغ مسلمان مردوں یا ایک مرد اور دو عورتوں کا ہونا ضروری ہے، چونکہ سوال میں ذکر کردہ صورت میں گواہ صرف ایک عالم ہے، اس لیے شرعاً ایسا نکاح منعقد نہیں ہوگا، اس لیے نکاح منعقد ہونے کے لیے مجلسِ عقد میں مزید ایک عاقل بالغ مسلمان مرد یا دو عورتوں کا ہونا شرعاً لازم ہے۔
البتہ اگر شوہر نے طلاقِ رجعی دی ہو، بائن نہ دی ہو اور اب تک عورت کی عدّت بھی نہ گزری ہو تو رجوع کے لیے تجدیدِ نکاح کی ضرورت نہ ہوگی، بلکہ قولی (زبان سے) یا فعلی (عمل سے) رجوع کرنا کافی ہوگا۔
رجوع سے مراد یہ ہے کہ شوہر بیوی سے زبان سے یوں کہہ دے کہ میں نے تجھ سے رجوع کرلیا ہے اور بہتر یہ ہے کہ اس پر دو گواہ بھی بنادے، اسی طرح اگر شوہر بیوی کے ساتھ ہمبستری کرلے یا شہوت کے ساتھ اسے چھولے تو اس سے بھی رجوع ہوجائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الهندية: (267/1، ط: دار الفکر)
(وأما شروطه) فمنها العقل والبلوغ والحرية في العاقد ... (ومنها) الشهادة قال عامة العلماء: إنها شرط جواز النكاح هكذا في البدائع وشرط في الشاهد أربعة أمور: الحرية والعقل والبلوغ والإسلام... ويشترط العدد فلا ينعقد النكاح بشاهد واحد هكذا في البدائع ولا يشترط وصف الذكورة حتى ينعقد بحضور رجل وامرأتين، كذا في الهداية ولا ينعقد بشهادة المرأتين بغير رجل وكذا الخنثيين إذا لم يكن معهما رجل هكذا في فتاوى قاضي خان.
ومن أمر رجلا أن يزوج صغيرته فزوجها عند رجل والأب حاضر صح وإلا فلا، كذا في الكنز قالوا إذا زوج ابنته البكر البالغة بأمرها وبحضرتها ومع الأب شاهد آخر صح.
و فیه ایضاً: (468/1، ط: دار الفکر)
الرجعة إبقاء النكاح على ما كان ما دامت في العدة كذا في التبيين وهي على ضربين: سني وبدعي (فالسني) أن يراجعها بالقول ويشهد على رجعتها شاهدين ويعلمها بذلك فإذا راجعها بالقول نحو أن يقول لها: راجعتك أو راجعت امرأتي ولم يشهد على ذلك أو أشهد ولم يعلمها بذلك فهو بدعي مخالف للسنة والرجعة صحيحة وإن راجعها بالفعل مثل أن يطأها أو يقبلها بشهوة أو ينظر إلى فرجها بشهوة فإنه يصير مراجعا عندنا إلا أنه يكره له ذلك ويستحب أن يراجعها بعد ذلك بالإشهاد كذا في الجوهرة النيرة.
الھدایة: (85/1، ط: دار احياء التراث العربي)
النكاح ينعقد بالإيجاب والقبول. . . ولا ينعقد نكاح المسلمين إلا بحضور شاهدين حرين عاقلين بالغين مسلمين رجلين أو رجل وامرأتين.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی