سوال:
مجھے کمپنی نے ایک کینٹین دی ہے جس میں کمپنی مجھے ہر مزدور کے پورے دن کے کھانے کے بدلہ 200 روپے دیتی ہے، پھر ماہانہ وہ مجھے اس کی رقم یکمشت دیتی ہے، جتنے بندوں نے کھانا کھایا ہو اس کی حاضری لگتی ہے، جو مزدور جس دن کھانا نہیں کھاتا اس دن اس کی رقم کاٹ دی جاتی ہے۔ اس پر میرا ذاتی مثلاً 6 لاکھ خرچہ آتاہے اور کمپنی مجھے مزدوروں کی حاضری کے حساب سے مثلاً 6 لاکھ 60 ہزار رقم دیتی ہے تو کیا 6 لکھ سے اوپر جو رقم ہے وہ میرے لئے لینا جائز ہے؟
جواب: پوچھی گئی صورت میں کمپنی کے ساتھ فی ملازم کے کھانے کے عوض طے شدہ رقم لینے کا معاملہ کرنا شرعاً درست ہے، لہذا اخراجات سے اوپر ملنے والی رقم وصول کرنا آپ کیلئے جائز ہے، بشرطیکہ ناجائز ہونے کی کوئی اور وجہ نہ پائی جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
تكملة فتح الملهم: (کتاب البیوع، 31/1، ط: دار العلوم کراتشی)
"وأجمعوا علي جواز دخول الحمام بالأجرة مع اختلاف الناس في استعمالهم المائ وفي قدر مكثهم، وأجمعوا علي جواز الشرب من السقائ بالعوض مع جهالة قدر المشروب واختلاف عادة الشاربين وعكس هذا.
قال العبد الضعيف عفا الله عنه : ويخرج علي هذا كثير من المسائل في عصرنا فقد جرت العادة في بعض الفنادق الكبيرة أنهم يضعون أنواعًا من الأطعمة في قدور كبيرة، ويخيرون المشتري في أكل ما شائ بقدر ما شائ، ويأخذون ثمنًا واحدًا معينًا من كل أحد، فالقياس أن لايجوز البيع ؛ لجهالة الأطعمة المبيعة وقدرها، ولكنه يجوز ؛ لأن الجهالة يسيرة غير مفضية إلي النزاع، وقد جري بها العرف والتعامل".
المبسوط للسرخسی: (74/8)
"وإنما جوزنا الاستصناع فیما فیه تعامل ففیما لا تعامل نأخذ بأصل القیاس".
بدائع الصنائع: (94/4)
"وأما شرائط جوازہ، فمنہا بیان جنس المصنوع ونوعه وقدرہ وصفته؛ لأنه لا یصیر معلوماً بدونه، ومنہا أن یکون مما یجري فیه التعامل بین الناس من أواني الحدید والرصاص والنحاس والزجاج والخفاف والنعال ولجم الحدید للدواب ونصول السیوف والسکاکین والقسی والنبل والسلاح کله الطشت والقمقمة ونحو ذٰلك، ولا یجوز في الثیاب؛ لأن القیاس یأبی جوازہ، وإنما جوازہ استحساناً لتعامل الناس ولا تعامل في الثیاب".
واللہ تعالیٰ أعلم بالصواب
دار الافتاء الاخلاص،کراچی