سوال:
ایک دوست کاروبار شروع کرنا چاہتا ہے جس میں وہ مختلف یونیورسٹیوں سے رابطہ کرے گا اور ان کے لیے پروموشنل اشیاء جیسے کہ ٹی شرٹس، مگز، کپ وغیرہ ڈیزائن کرے گا۔ جب آرڈر موصول ہوں گے تو وہ دنیا بھر میں موجود فیکٹریوں سے ان اشیاء کو تیار کروائے گا اور براہِ راست انہیں متعلقہ یونیورسٹیوں کو بھیج دے گا۔ اس پورے عمل میں وہ خود ان اشیاء کو اپنے قبضے میں نہیں رکھے گا، بلکہ وہ سیدھا یونیورسٹی کو بھیجی جائیں گی۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایسا کاروبار شریعت کے مطابق جائز ہے؟
جواب: سوال میں ذکر کردہ معاملہ فقہی اصطلاح میں "استصناع" یعنی آرڈر پر کوئی چیز تیار کروانا کہلاتا ہے، لہذا پوچھی گئی صورت میں درج ذیل شرائط پائی جائیں تو اس طرح آگے کسی اور کمپنی وغیرہ سے کام کروانا شرعاً درست ہے، وہ شرائط یہ ہیں:
1۔ وہ کام بذات خود جائز ہو۔
2۔ آرڈر دینے والے (یونیورسٹی وغیرہ) کی طرف سے یہ شرط نہ لگائی گئی ہو کہ وہ خود کام کرکے دے۔
3۔ آگے کسی اور سے کام کروانے کی صورت میں کسٹمر کے ساتھ اس چیز کا طے شدہ معیار/کوالٹی (Quality) متاثر نہ ہو رہی ہو۔
4۔ چیز کی قیمت واضح طور پر متعین اور پہلے سے طے شدہ ہو۔
5- چیز تیار ہونے کے بعد خود یا اپنے کسی نمائندہ کے ذریعے اسے اپنے قبضہ میں لے کر پھر آگے اپنے گاہک کو بھیجی جائے، اپنے قبضہ میں لئے بغیر وینڈر (Vendor) سپلائر سے براہ راست اپنے گاہک کو بھیجنا شرعاً درست نہیں ہے۔
واضح رہے کہ مال کو حسّی طور پر اپنی تحویل اور قبضہ (physical possession) میں لینا شرعاً ضروری نہیں ہے، بلکہ اگر حکمی/معنوی قبضہ (Constructive Possession) لے لیا جائے، تب بھی کافی ہے۔
حکمی قبضہ کا مطلب یہ ہے کہ خریدے ہوئے مال کی باقاعدہ نشاندہی کرلی جائے اور بیچنے والے کی طرف سے خریدار کے لیے اس میں مالکانہ تصرفات کرنے میں کوئی رکاوٹ حائل نہ ہو۔
لہذا اگر آپ یا آپ کا کوئی نمائندہ حسی طور پر مال اپنے قبضہ میں لے کر پھر آگے گاہک کو بھیج دے یا پھر دوسری صورت یہ ہے کہ وینڈر آپ کے مال کی باقاعدہ نشاندہی کرکے الگ کرلے، آپ کو مالکانہ تصرفات دیدے تو ایسی صورت میں شرعاً اس مال پر آپ کا قبضہ (حکمی) متحقق ہوجائے گا، اس کے بعد وہ وینڈر آپ کے کہنے پر وہ مال آپ کے گاہک کو بھیج دے تو یہ صورت بھی شرعاً درست ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
بدائع الصنائع: ، (2/5، 3، ط: دارلکتب العلمیة)
هو (اي الإستصناع) عقد على مبيع في الذمة شرط فيه العمل۔ وأمّا حكم الاستصناع فهو ثبوت الملك للمستصنع في العين المبيعة في الذمة وثبوت الملك للصانع في الثمن ملكا غير لازم۔
تبیین الحقائق: (کتاب الإجارة، 112/5، ط: امدادیة)
وان اطلق کان له ان یستاجر غیره لان الواجب علیه عمل فی ذمته ویمکنه الایفاء، بنفسه و بالاستعانة بغیرہ
الھدایة: (باب الاجر متی یستحق، 296/3)
واذا شرط علی الصانع ان یعمل بنفسه فلیس له ان یستعمل غیرہ لانه المعقود علیه اتصال العمل فی محل بعینه فیستحق عینه کالمنفعة فی محل بعینه
شرح المجلة: (الفصل الثالث فی شروط صحۃ الاجارۃ، المادة: 450، 451)
یشترط ان تکون الاجرۃ معلومة۔۔۔۔یشترط فی الاجارۃ ان تکون المنفعة معلومة بوجه یکون مانعا للمنازعة۔
فقه البيوع: (601/1، ط: مكتبة معارف القرآن)
وبما أن المصنوع ملك للصانع، وليس ملكا للمستصنع قبل التسليم، فلا يجوز للمستصنع أن يبيعه قبل أن يُسلّم إليه.
بدائع الصنائع: (242/4، ط: زکریا)
ولا یشترط القبض بالبراجم؛ لأن معنی القبض ہو التمکن والتخلّي وارتفاع الموانع عرفًا وعادةً حقیقةً
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی