سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب! اگر ایک عورت مر جائے اور ورثاء میں والدین، شوہر اور ایک بیٹا ہو تو ان میں کل کتنے حصے کرنے ہوں گے اور ہر وارث کو کتنا حصہ ملے گا؟ جزاک اللہ خیرا
جواب: مرحومہ کی تجہیز و تکفین کے جائز اور متوسط اخراجات، قرض کی ادائیگی اور اگر کسی غیر وارث کے لیے جائز وصیت کی ہو تو ایک تہائی (1/3) میں وصیت نافذ کرنے کے بعد کل جائیداد منقولہ اور غیر منقولہ کو بارہ (12) حصوں میں تقسیم کیا جائے گا، جس میں سے شوہر کو تین (3)، بیٹےکو پانچ (5)، والد کو دو (2) اور والدہ کو دو (2) حصے ملیں گے۔
اگر فیصد کے اعتبار سے تقسیم کریں تو شوہر کو %25 فیصد، بیٹے کو %41.66 فیصد، والد کو %16.66 فیصد اور والدہ کو %16.66 فیصد حصہ ملے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم:(النساء، الایة: 11)
وَ لِاَبَوَیْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ اِنْ كَانَ لَهٗ وَلَدٌۚ...الخ
و قوله تعالیٰ: (النساء، الایة: 12)
وَلَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ أَزْوَاجُكُمْ إِن لَّمْ يَكُن لَّهُنَّ وَلَدٌ فَإِن كَانَ لَهُنَّ وَلَدٌ فَلَكُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْنَ مِن بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِينَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ ... الخ
الھندیة: (451/6، دار الفکر)
(الباب الثالث في العصبات) وهم كل من ليس له سهم مقدر ويأخذ ما بقي من سهام ذوي الفروض وإذا انفرد أخذ جميع المال، كذا في الاختيار شرح المختار.
فالعصبة نوعان: نسبية وسببية، فالنسبية ثلاثة أنواع: عصبة بنفسه وهو كل ذكر لا يدخل في نسبته إلى الميت أنثى وهم أربعة أصناف: جزء الميت وأصله وجزء أبيه وجزء جده، كذا في التبيين فأقرب العصبات الابن ثم ابن الابن وإن سفل ثم الأب ثم الجد أب الأب وإن علا، ثم الأخ لأب وأم ، ثم الأخ لأب ثم ابن الأخ لأب وأم، ثم ابن الأخ لأب ثم العم لأب وأم ثم العم لأب ثم ابن العم لأب وأم، ثم ابن العم لأب ثم عم الأب لأب وأم ثم عم الأب لأب ثم ابن عم الأب لأب وأم، ثم ابن عم الأب لأب ثم عم الجد، هكذا في المبسوط.
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی