سوال:
ہمارے گھر میں نئے کرایہ دار آئے ہیں، کسی نے بتایا ہے کہ ان کے والد یو بی ایل انشورنس میں ملازمت کرتے ہیں، جبکہ لڑکے خود ایک جائز ملازمت کرتے ہیں جس میں سود یا انشورنس نہیں ہے۔ معلوم یہ کرنا ہے کہ کیا میرے لیے ان سے کرایہ لینا حلال ہوگا؟ نیز کیا مجھے ان سے یہ پوچھنا لازمی ہے کہ وہ کرایہ کس کی سیلری (والد یا اپنی) سے دیں گے؟
جواب: واضح رہے کہ اجرت کے معاملے میں اصولی بات یہ ہے کہ اگر کسی شخص کی کمائی کا اکثر حصہ سود یا ناجائز کاموں سے حاصل شدہ مال پر مشتمل ہو تو ایسے شخص سے اجرت لینا جائز نہیں ہے، لیکن اگر کمائی کا اکثر حصہ جائز کاموں سے حاصل شدہ مال پر مشتمل ہو تو ایسے شخص سے اجرت لینے کی گنجائش ہے، نیز پوچھی گئی صورت میں اگر یقینی طور پر معلوم ہو کہ وہ کرایہ کی رقم حرام کی کمائی سے دے رہا ہے تو اس صورت میں اس سے وہ پیسے لینا جائز نہیں ہے، بلکہ اس سے حلال ذریعہ آمدن سے کرایہ ادا کرنے کا مطالبہ کرنا چاہیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الھندیة: (247/1، ط: دار الفکر)
الحرمة تتعدی فی الأموال مع العلم بھا، الا فی حق الوارث فإن مال مورثه حلال له وإن علم نحرمته منه، من الخانیة.
و فیه ایضاً: (342/5، ط: دار الفکر)
ولا يجوز قبول هدية أمراء الجور؛ لأن الغالب في مالهم الحرمة إلا إذا علم أن أكثر ماله حلال بأن كان صاحب تجارة أو زرع فلا بأس به؛ لأن أموال الناس لا تخلو عن قليل حرام فالمعتبر الغالب، وكذا أكل طعامهم، كذا في الاختيار شرح المختار.
الدر المختار مع الرد: (کتاب البیوع، باب المتفرقات من أبوابها، مطلب إذا اكتسب حراما ثم اشترى فهو على خمسة أوجه: 235/5، ط: سعید)
اكتسب حراما واشترى به أو بالدراهم المغصوبة شيئا. قال الكرخي: إن نقد قبل البيع تصدق بالربح وإلا لا وهذا قياس۔ قال ابن عابدین: (قوله اكتسب حراما إلخ) توضيح المسألة ما في التتارخانية حيث قال: رجل اكتسب مالا من حرام ثم اشترى فهذا على خمسة أوجه: أما إن دفع تلك الدراهم إلى البائع أولا ثم اشترى منه بها أو اشترى قبل الدفع بها ودفعها، أو اشترى قبل الدفع بها ودفع غيرها، أو اشترى مطلقا ودفع تلك الدراهم، أو اشترى بدراهم أخر ودفع تلك الدراهم. قال أبو نصر: يطيب له ولا يجب عليه أن يتصدق إلا في الوجه الأول، وإليه ذهب الفقيه أبو الليث، لكن هذا خلاف ظاهر الرواية فإنه نص في الجامع الصغير: إذا غصب ألفا فاشترى بها جارية وباعها بألفين تصدق بالربح. وقال الكرخي: في الوجه الأول والثاني لا يطيب، وفي الثلاث الأخيرة يطيب، وقال أبو بكر: لا يطيب في الكل، لكن الفتوى الآن على قول الكرخي دفعا للحرج عن الناس اه. وفي الولوالجية: وقال بعضهم: لا يطيب في الوجوه كلها وهو المختار، ولكن الفتوى اليوم على قول الكرخي دفعا للحرج لكثرة الحرام اه وعلى هذا مشى المصنف في كتاب الغصب تبعا للدرر وغيرها۔"
واللہ تعالیٰ أعلم بالصواب
دار الافتاء الاخلاص،کراچی